بھٹکل میونسپل بلڈنگ پر لکھی اردو طرز تحریر تنازع
نقاش نائطی
۔ +966562677707
ھندو مسلم منافرت کی آگ بھڑکاتے ہوئے، ھندو ووٹ یکجا کر، انتخاب جیتنے کی سعی کرنا اسے مانا جاسکتا ہے۔ اس تنازعہ میں مجلس اصلاح و تنظیم کے عہدیداران، رابطہ کمیٹی عہدیداران، کے بشمول مختلف مقامی رفاعی ادروں کا کردار و سرکاری حکام کے سامنے ترجمانی، نہ صرف ایک حد تک ٹھیک ٹھاک بلکہ ان کے بے باکانہ سخت کلامی پر، داد دینے کو دل کرتا یے۔ مسئلہ نئی عمارت پر اردو بورڈ منقش کئے جانے سے قبل ریاستی میونسپل قانون کے پیش نظر، مناعی کی گئی ہوتی تو الگ بات تھی،
مقامی مختلف مرکزی اداروں کی طرف سے اتنی ساری یاد داشتیں دینے کے باوجود، ڈسٹرکٹ کمشنر کا یوں ، میونسپل قانون کا سہارا لینے کا بہانہ کر، آنا” فاناً سرکاری عملہ بھیج، کنندہ اردو حروف کو توڑ یا کھرج نکالنا کہیں نہ کہیں قبل از وقت تیار کی گئی سازش کی طرف اشارہ کرتا عمل ہے۔ ہمیں اس بات میں بھی جھول لگتا ہے
کہ میونسپل قانون 2018 میں کنڑا انگلش علاوہ کوئی اور زبان بورڈ نہ لکھنے کی مناعی بھی ہوگی؟ یہ اس لئے کہ کرناٹک کے صوبے بلگام میں کنٹرا انگلش کے علاوہ مراٹھی طرز تحریر استعمال کئے جانے کی خبریں ہیں۔ اور ایک کلپ میں ڈی سی کے اس بیان پر کہ میونسپل چیف آفیسر نے، میونسپل قانون کے بارے میں ایسے بتایا اس پر بھٹکل میونسپل چیف آفیسر کے کردار پر شبہ ہوتا ہے کہ شاید اسی نے، کنٹرا زبان پریم کے بہانے، شرپسندوں کو، احتجاج پر ابھارا ہوگا
جس ہمت سے پولیس و ضلعی حکام کے سامنے ہمارے قومی رضاکاران نے کسی بھی حالات سے نمٹنے کی بات کہی تھی، اسکے بعد، ڈی سی کے حکم پر بھی، پہلے سے لگے اردو تحریر کو ہٹائے جانے دینا، تعجب خیز لگتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں قومی نوجوان جمع ہوکر تاوقت یہ کہ عدلیہ کا فیصلہ آنے تک،
اردو تحریر ہٹانے سے روکا جاتا تو کنٹرا انگلش کے ساتھ اردو تین زبانی سو سالہ سائین بورڈ تحریر کا ثبوت پیش کرتےہوئے، عدالت سے انصاف ملنے کی توقع تو کی جاسکتی تھی۔ ہمیں تعجب ہوتا ہے قانونی داؤ پیچ کے ماہر شخصیت کے صدر بلدیہ رہتے، اس سطح پر قوم کو سبکی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے یہ ہم نے نہیں سوچا تھا۔
سابقہ 8 سالہ سنگھی مودی بریگیڈ دور حکومت میں، بابری مسجد تنازع پر آیا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہو، یا دستور ھند میں مسلم اقلیت کو دئیے حقوق کے منافی، مدرسہ ڈریس کوڈ بہانے، باحجاب مسلم طالبات کو،بےحجاب کرتے کرناٹک ہائی کورٹ آیے فیصلے باوجود، دیش کی آزادعدلیہ سے، انصاف نہ ملنے کی توقع رکھے، عدالت سے رجوع ہی نہ کرنا، حماقت عظیم لغزش تصور ہوگی۔ اب میونسپل نئی عمارت سے کسی بھی بہانے ڈی سی کے حکم پر، عملا” اردو تحریر ہٹائی جاچکی ہے،اس لئے دوبارہ اردو تحریر لکھنے کی اجازت عدلیہ سے ملنا مشکل امر ہے
،پھر بھی، صوبائی کنڑا و انگلش زبان کے ساتھ مقامی اکثریتی بول چال اردو زبان استعمال کرنے کی اجازت کے لئے، قانونی ماہرین سے مشورہ بعد، عدلیہ سے رجوع کرنا، اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تک قانونی تقاضوں کے تحت،انصاف طلب نہیں کیا جاتا ہے، انصاف ملنے کی امید بھی باقی رہتی ہے۔ علاوہ اتنے اہم معاملہ میں ہمارا سکوت شرپسندوں کو اور نت نئے معاملات میں دخل اندازی و شر پھیلانے کے مواقع فراہم کرسکتا ہے
۔ پورے کرناٹک کی مسلم آبادی کے پیش نظر، یوپی بہار، دہلی،پنجاب،جھاڑ کنڈ، مغربی بنگال، تیلنگانہ آندھرا پردیش طرز اردو کو صوبہ کرناٹک سرکاری ثانوی درجہ کی زبان حیثیت دلوانے کی جد و جہد اب انتہائی ضروری ہوگئی ہے۔ اگر پورے کرناٹک کے مسلمان کانگریس و جنتا دل سمیت سیکیولر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ،انتخابی سمجھوتے کرتے ہوئے، بعد کنڑا، اردو کو، سرکاری ثانوی درجہ دلوانے میں گر کامیابی ہوتے ہیں تو مستقبل میں پھر ایک مرتبہ اردو طرز تحریر بلدیہ نئی عمارت پر کنندہ کئے جاتے ہوئے ،اردو کی شان اسے دلوائی جاسکتی ہے۔
ہمیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ 8 سالہ مودی یوگی بومائی سنگھی بریگیڈ مسلم مخالف حکومتی رجحان تناظر میں، مستقبل قریب ہونے والے ریاستی انتخاب اور ہفتہ ہھر بعد مسلم عید قربان کے پیش نظر، ہم مسلمانوں کو، اپنے علاقے کے امن وآمان کا لحاظ رکھتے ہوئے، ہر قدم پھونک پھونک رکھنا چاہئیے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ شرپسندوں کے مکرو فن سے ڈر کر ایمانی و جہادی قوت سے ماورا مردوں کی سی زندگی جی جائے،
حالیہ دنوں کے مرکزی ادارے تنظیم، رابطہ آفس و اسپورٹس کلپ فیڈریشن کی قیادت جس دلیری کا مظاہرہ کر رہی ہے ان کی پشت پر قوم کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے کوشش کرنا ہم مسلمانوں کا فرض اولی ہے، باقی بحیثیت مسلمان ہمارا یقین محکم ہے
ہمارے قومی سطح کے بھلے یا بڑے فیصلے تو بارگاہ ایزدی سے ہی ہوتے ہیں یہ مسلم دشمن سنگھی حکومت تو بہانہ ہے۔ ہم بغیر کوشش کئے توکل علی اللہ خاموش بیٹھے رہیں اس کی بھی تعلیم ہمیں ہمارا مذہب نہیں دیتا ہے۔ کوشش کے ساتھ اجتماعی دعا ہی سے ہر مصیبت سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔*
*اردو زبان نہ صرف مرکزی طور، آفیشیل سرکاری طور، ثانوی درجہ پانے والی زبان ہے بلکہ آندھرا پردیش، بہار، جھاڑ کنڈ، مغربی بنگال، تیلنگانہ اور مرکزی دارالخلافہ حدود صوبہ دہلی میں بھی، سرکاری طور اردو زبان ثانوی درجہ رکھتی ہے۔وما علینا الا البلاغ