36

کوئی تو راہ نکالی جائے !

کوئی تو راہ نکالی جائے !

اس وقت پاکستانی سیاست عجیب دوراہے پر کھڑی ہے،یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے،ملک میںانتخابات کب ہوں گے ،یہ بھی کوئی نہیں جانتا،مگر اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میںکھینچا تانی اپنے عروج پرہے،ایک طرف حکومت اپنی مدت پور کرنے پر بضد ہے تو دوسری جانب الیکشن کا مطالبہ کر نے والے چین سے نہیں بیٹھ رہے ہیں،ایک کے بعد ایک کا میاب جلسے کئے جارہے ہیں، مجال ہے کہ کسی جلسے میں لوگوں کارش کم ہو جائے اور مجال ہے کہ عمران خان اپنا بیانیہ بدلا لیں ،عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے بیا نیہ کا ساتھ دیتے ہوئے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں

،جبکہ اتحادی حکومت نے اپوزیشن کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ ہرسخت فیصلہ کریں گے، مگر وقت سے پہلے انتخابات نہیں کروائیں گے۔امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ہر دورحکومت میں اپنے سخت فیصلوں کی آڑ میں عوام کی چمڑی ادھیڑی جاتی ہے،لیکن اشرافہ پر کوئی ہاتھ ڈالنے کیلئے تیار نہیںہے ، اگر حکومت واقعی چند ایسے مشکل فیصلے کر لے کہ جنہیں واقعی مشکل فیصلے کہا جاسکے

تو اس صورت میں نظام کو سنبھالنے اور اسے بچانے کی روش پر گامزن ہو ا جاسکتا ہے، اگرحکومت واقعی کچھ بہتر کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے ارکان پا رلیمان سے کر افسران بالا تک کی مرعات کا خاتمہ کرے اور اپنے شہانہ طرز عمل کو بھی سادگی میں بدلے ،ہر بار غریب عوام پر بوجھ ڈالتے چلے جانے کا رخ اب اشرافیہ کی طرف موڑنا چاہئے ،اس ملک میںجب تک ایسے لوگ کام کرتے ہوئے پسینے سے شرابور نہیں ہو جاتے کہ جنہیں سہولتیں فراہم کرنے میں ہی ملکی وسائل اور بیرونی قرض استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے، تب تک مشکل فیصلوں کی منطق بس پتلے پر تیر چلاتے جانے کے ہی مترادف ہے۔
اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت مشکل فیصلوں کے نام پر عوام کا ہی کچومر نکالے جا رہی ہے، عوام کی قوتِ خرید گزرتے وقت کے ساتھ دم توڑنے لگی ہے ، اگر کسی ملک کا صارف ہی دیوالیہ ہو جائے تو اْس ملک کو دیوالیہ ہونے سے کوئی بھی نہیں بچا سکے گا ،حکومت نے بار بار صرف پٹرول ہی مہنگانہیں کیا، بلکہ ملک بھر میں ہر ایک چیز کو آگ لگا دی ہے، اشیاء ضروریہ سے لے کرٹرانسپورٹ کے کرائیوں تک آسمان سے باتیں کر رہے ہیں،عوام کی زندگی انتہائی مشکل بنا دی گئی ہے

،اس کے بعد بھی حکومت کہتی ہے کہ ہم اپنی مدت پوری کریں گے ،یہ حکمران کس ایجنڈے کے تحت اقتدار میں آئے ہیں،کوئی خبر نہیں ، لیکن اتنی خبر ضرور ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے عوام کی زندگی میں سکھ چین کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے ۔اس وقت واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو چکا ہے ،عوام سراپہ احتجاج ہیں اور سڑکوں پر آنے کیلئے تیار ہیں ،عمران خان نے بھی احتجاج کی کال دیے دی ہے

،اس کے نتیجے میں پریڈ گرائونڈ میں ایک بھر پور پاور شو کیا گیا ، عوام کا جم غفیر عمران خان کی آواز کے ساتھ آواز ملاتے ہوئے حکومت کے خلاف علم بغا وت بلند کررہا ہے ،اگر چہ سیاسی معاملات کو ہجوم کے ہاتھوں میں دینا خطرناک روش ہے، مگر عمران خان اسے ہی اپنی کامیابی کا راستہ سمجھتے ہیں اور اس سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں نہ اپنے مخالفین کو کوئی رعایت دینا چاہتے ہیں

،وہ بار بار عوام کی عدالت میں جانے کا مطالبہ کررہے ہیں ،مگر حکومت اپنی ضد پر اڑی ہے کہ انتخابات اپوزیشن کی نہیں، اپنی مرضی اور اپنے وقت پر ہی کروائے گی۔اگردیکھا جائے تو اس وقت سیاست کی تثلیث کے درمیان اعصاب کی جنگ جاری ہے اتحادی حکومت ،مقتدرہ
اور عمران خان اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں،یہ قومی نقطہ و نظر سے کوئی نیک شگون نہیں ہے،

اس وقت حالات کو کسی انتہا پر جانے سے پہلے نارمل کرنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہو گی،لیکن وقت کی نزاکت کا کسی جانب سے بھی احساس نہیں کیا جارہا ہے، اس وقت واضح طور پر فریقین کے درمیان میں ایک ڈیڈ لاک نظر آ رہا ہے، کیا اس صورت حال کو جوں کا توں اس کے حال پر چھوڑ کر کسی معجزے کا انتظار کیا جارہا ہے؟ کیا ایسے حالات میں کوئی معجزہ رونما ہو سکتا ہے کہ جب سارے فریق ہی ایک دوسرے سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں،اس صورت حال میںکوئی معجزہ ہونے والا ہے

نہ حالات میں خود بخود بہتری آئے گی ،سیاسی قیادت کے ساتھ عوام بھی ایک بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ مذاکرات کا دروازہ کھولا جائے اور مل بیٹھ کرسیاسی فیصلوں کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوئی راہ نکالی جائے،بصورت دیگر سب ہی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں