حکمران کا انصاف
ایک دفعہ عمر بن خطاب ؓ راستے سے گزر رہے تھے ۔ اچانک انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی راستے ہی میں ایک عورت سے گفتگو کررہا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے اسے کوڑا مارا۔ اس نے عرض کی: اے امیرالمومنین! یہ میری بیوی ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: تو اپنی بیوی کیساتھ راستے میں کیوں کھڑا ہے؟ اور لوگوں کو اپنی ذاتی گفتگو کی طرف کیوں متوجہ کررہا ہے؟
سیدنا عمر ؓ نے یہ سن کر کوڑا اس کی طرف بڑھا دیا اور فرمایا: اے اللہ کے بندے! مجھ سے قصاص لے لے۔ اس آدمی نے کہا: میں آپ کی رضا کیلئے قصاص چھوڑتا ہوں۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: یہ کوڑا پکڑ اور قصاص لے۔ تیسری دفعہ کہنے پر اس آدمی نے کہا: میں نے اللہ کیلئے معاف کیا۔ اب سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: تیرے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کوڑا ثواب کا سبب بن گیا.
اس واقعے سے دو باتیں بہت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہیں۔ ایک بطور مسلمان میاں بیوی کا رشتہ، تعلق، انکی ذاتی زندگی، اس میں رازداری اور پردہ داری۔ اور دوسرا نقطہ بطور مسلم حکمران کے غلطی ہونے پر اسی لمحے اس غلطی کا ادراک ہونا اور پھر اسکی تلافی کرنے کی سعی کرنا۔
قران میں اللہ نے فرمایا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے لباس کی مانند ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے جیون ساتھی ہیں تو ایک دوسرے کی عزت کا، مان کا، وقار کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ ایک کی عزت کا دارومدار دوسرے کی عزت پر ہے۔ اور اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ عورت کو اسلام کیا مقام دیتا ہے
کہ جس سے اسکا شرعی رشتہ ہے صرف وہی اسکی ذاتی زندگی سے واقف ہو، کسی اور کو حق نہیں کہ اسکی ذاتی زندگی میں دخل دے، یہاں تک کہ میاں بیوی کو منع کیا گیا کہ اپنی باتیں دنیا کی نظروں میں نہ لاؤ۔
رہی بات مسلم حکمران کی تو ذرا اس عاجزی، اس انکساری، اس خشیت الٰہی پر غور کریں، کہ خلیفہ وقت نے اس آدمی کو شرعی حکم کے بارے میں تنبیہہ کی لیکن جیسے ہی معلوم ہوا کہ خلیفہ وقت نے غلطی کی تو اسی وقت اپنی غلطی کا احساس ہوا، اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور پھر اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ اس آدمی نے انہیں اللہ کیلئے معاف کیا۔
لہذا اس واقعے میں ہمیں ایک پورا اسلامی معاشرہ نظر آتا ہے، ایک عام انسان سے لیکر وقت کے حاکم تک کا ہمارا رویہ، ہمارا کردار، رب کا خوف، شریعت سے محبت، اللہ و رسولﷺ کے احکام کی پاسداری کا احاطہ کرتی ہے یہ واقعہ۔ اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اٰمین۔
بحوالہ کتاب: علم کی اہمیت اور اسکی ترویج، باب نمبر:۳ (عہد خلافت)، صفحہ نمبر:۳۳۵