32

انتخاب کاحق نہ چھینا جائے

انتخاب کاحق نہ چھینا جائے

اس وقت ملکی سیاست میں ضمنی انتخاب کا زور اور دھاندلی کا شور ہے ،اتحادی حکومت کا دعوایٰ ہے کہ شفاف الیکشن کے ذریعے بھاری اکثریت سے جیتے گی ،جبکہ اپوزیشن قیادت کا کہنا ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن نے مل کر دھاندلی کا منصوبہ بنارکھاہے ،اس کے باوجود پی ٹی آئی کا میاب ہو گی ،

اس انتخابات میں کسی ایک کی جیت اور ہار ہو گی ،لیکن یہ بات طے ہے کہ ہارنے والا کبھی انتخابی نتایج نہیں مانے گا ،تاہم انتخابی نتایج سے جہاں واضح ہو جائے گا کہ اس وقت پنجاب میں ہوائیں کس طرف چل رہی ہیں ،وہیں اس سے مستقبل کی سیاست کے رجحان کا بھی اندازہ لگایا جا سکے گا۔
اس میں شک نہیں کہ انتخابی صورتِ حال بڑی ہی عجیب ہے،اس انتخابات میں ایسے زیادہ تر امیدوار حصہ لے رہے ہیں

کہ جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر حصہ لیا تھا، لیکن اس ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں، اس لئے اکثر حلقوں میں نتائج بڑے ہی دلچسپ ہوں گے ،ایک عام تاثر ہے کہ ان ضمنی انتخابات میں کوئی بڑا اَپ سیٹ بھی ہوسکتا ہے اور مسلم لیگ (ن) کی امیدوں کے برعکس تحریک انصاف کو اکثریتی کامیابی مل سکتی ہے ، اس کی بڑی وجہ موجودہ مہنگائی اور اپنی وفاداریاں بدلنے والوں کوقرار دیا جارہا ہے۔علم غیب تو اللہ علیم و خبیر ہی کے پاس ہے،

تاہم امکانات کی روشنی میں اپنی رائے ضروردی جاسکتی ہے ، اس انتخاب میں ایک طرف حکومت کے سارے وسائل استعمال ہو رہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن قیادت کے حق میں عوام رائے کی ایک لہر چلی ہو ئی ہے ،اگر دھاندلی نہ ہوئی اور مقتدرہ بھی نیو ٹل رہیں تو اَپ سیٹ ہو سکتا ہے ، دوسری صورت میںمسلم لیگ( ن) کی واضح برتری نظر آرہی ہے،جہاں تک بات موجودہ مہنگائی اور لو ٹوں کی ہے

تو جب مقتدرہ کا ساتھ ہے تو پھر ایسی ساری باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں، تحریک انصاف جتنے مرضی کا میاب جلسے کر لے ،جتنے مرضی سیاسی بنانات اور شور شرابہ کرلے،جتنا مرضی عوامی شعور بیدار کر لے ، اس ملک میں عوام کی رائے چلتی ہے نہ عوام کی آواز سنی جاتی ہے ،اس ملک میں مقتدرہ کی چلتی ہے اور مقتدرہ کے مرضی کے ہی نتائج آتے ہیں۔یہ امر واضح ہے کہ موجودہ ضمنی انتخابات کے غیر متوقع نتایج اپوزیشن قیادت کبھی قبول نہیں کریں گے،عمران خان بار ہا اپنے بیانات کے ذریعے واضح کر چکے ہیں

کہ انتخابی نتائج بدلنے کی کوشش کی گئی توملک میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں ،تحریک انصاف قیادت ایک طرف مقتدرہ کو متنبہ کررہی ہے تو دوسری جانب بیک ڈور چینل پر ملاقاتوں کی بازگشت بھی سنائی دیے رہی ہے ،اگر پی ٹی آئی انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو اس جیت کا واضح مطلب ہو گا کہ مقتدر طاقتوں نے موجودہ حکومت کو بوریا بستر لپیٹنے کا عندیہ دے دیا ہے اور اگر پی ٹی آئی ہار تی ہے

تو اس کا مطلب اتحادی حکومت پر مکمل اعتماد کا اظہار ہے،لیکن دونوں ہی صورتوں میں سیاسی محاذ آرائی کے ساتھ انتشار بھی بڑھتا دکھائی دیے رہا ہے ۔ہمیں سمجھنا ہوگا کہ پاکستان جن داخلی اور خارجی بحران سے گزررہا ہے، اس سے نمٹنا میں تن تنہا کوئی حکومت بھی کچھ نہیں کرسکتی ،یہ کام اجتماعی سطح پر ہوگا

اور سب فریقین کو اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپناحصہ ڈالنا ہوگا،حکومت کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ خود آگے بڑھ کر محاذ آرائی کی سیاست کے خاتمہ میں خود قیادت کرتے ہوئے نظر آئے اور اس تاثر کی نفی کرے کہ وہ محاذ آرائی کو پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے،پیپلز پارٹی، مسلم لیگ( ن )اورتحریک انصاف ایک سیاسی حقیقتیں ہیں

اور ان کے وجود کو تسلیم کرکے ہی آگے بڑھا جاسکتاہے،سیاسی قائدین نے ایک دوسرے کو قبول کرتےہوئے عوام کی رائے کا بھی احترام کرنا ہو گا ،تبھی ملک میں سیاسی استحکام لایا جاسکے گا۔
یہ وقت سیاسی انتشار کا نہیں ، سیاسی استحکام کا ہے ،لیکن سیاسی استحکام کیلئے شفاف انتخاب کا انعقاد ضروری ہے ،اس نتخابات کو آزادانہ اور شفاف بنانے کی ذمہ داری حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کی ہے ،زمینی حقائق واضح ہیں

کہ عمران خان کی پکار پر عوام نکل رہے ہیں ،اس عوامی آواز کو دبانے اور اس عوامی ریلے کو روکنے کی بجائے عوامی رائے کا احترام کرنا چاہئے ،اس وقت عوامی جذبات اور عوامی طاقت ایک سیل رواں کی طرح مو جزن ہو چکی ہے ،اس کے خلاف کوئی بھی بند کار گر ثابت نہیں ہو گا ،عوام کے خلاف بند باندھنے کی بجائے عوام کو آزادانہ حق رائے دینے کی ضرورت ہے ،ڈر ہے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اور وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے ،یہ حق عوام کے پاس ہی رہنے دیا جائے کہ وہ کسے منتخب کرتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں