اک تعارف
فرہاد احمد فگارؔ،مظفرآباد،آزاد کشمیر
فرہاد سب صحابہ میرے سینے کا پھول ہیں
نسلِ علی میں ہونے سے ہی میری شان ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اے لوگو!ہم نے تمھیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمھیں بڑی بڑی قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘ سورہ حجرات کی اس آیت کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذات پات،قومیں اور قبائل انسان کی پہچان کے لیے ہوتے ہیں۔ قبیلے کی پہچان رکھنا اور اپنے آبا ؤ اجداد کی بابت جاننا معاشرتی اور سماجی ضرورت ہے۔ دنیا میں بے شمار قبائل اور گوتیں موجود ہیں۔
ان میں سے ایک قبیلہ علوی اعوان بھی ہے۔ اعوان قبیلے کے متعلق ہر ذی شعور اِدراک رکھتا ہے کہ یہ شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی غیر فاطمی اولاد میں سے ہیں۔ یہ قبیلہ حضرت محمد الاکبر بن علی بن ابو طالب(امام حنفیہ)کی نسل سے ہیں۔اعوان قبیلے نے دنیا میں کئی نام وَر شخصیات پیدا کیں۔ عصرِ حاضر میں بے شمار ایسے احباب موجود ہیں جو اپنے قول،فعل،عمل اور کردار سے لوگوں کی اصلاح و تربیت کا بیڑا اٹھاے ہوئے ہیں۔کئی احباب اپنے قلم کے ذریعے علمی و تحقیقی محاز پر جہاد میں مصروفِ عمل ہیں
۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا وقت،سرمایہ اور زندگیاں صرف کر کے اپنے قبیلے کو دنیا میں بقاے دوام بخشے ہوئے ہیں۔تحقیق کی کھٹن گھاٹیوں میں آوارگی کر کے اور دشت در دشت خاک چھان کر علم و فضل کے چند دُرِ نایاب کھوجنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ایسی ہی ایک شخصیت جواپنے دل میں قبیلے کی محبت پالے ہوئے ہے
۔ اس شخص نے اپنی زندگی کے مقاصد میں قبیلے کی فلاح اور قبیلے میں اتحاد قائم کرنا بھی اہم مقصد سمجھ رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے خبریں دیتے ہیں اور صحافت میں بھی قبیلے کو بھولنا گویا گناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ ایبٹ آباد کا گاؤں سربھنہ آبائی علاقہ ہے تاہم ۲۱ مارچ۱۹۷۲ء کو پیدائش راول پنڈی میں ہوئی۔
والد حسن الدین اعوان کے گھر جنم لینے والے نومولود کا نام نسیم تجویز ہوا جو والد کی اور برادری کی نسبت لگانے پر نسیم حسن اعوان ہو گیا۔ نسیم حسن اعوان ملک کے نامی اخبارات سے منسلک رہے۔ قلم سے رشتہ قائم کیا اور روز بہ روز اس رشتے میں مضبوطی آتی گئی۔ قلم کے تعلق کو نبھاتے اور قبیلے کے درد کو سنبھالتے ہوے مارچ ۲۰۲۲ء میں ”مجلسِ اعوان” شائع کر دی۔ ’’مجلس اعوان‘‘ جہاں اعوان قبیلے کی ایک اہم دستاویز بنی وہیں ایک خوب صورت فون ڈائریکٹری بھی ہے۔
اعوان قبیلے کے سپوتوں کے تعارف اور کارناموں پر مشتمل یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ اس کتاب کو مولف نے ان ہستیوں کے نام معنون کیا ہے جن کے دم سے ان کی حیات ہے یعنی ان کے والدین۔ کتاب کی اشاعت کے حوالے سے خصوصی معاونت کرنے والوں میں (قائد اعوانان) کریم خان اعوان، اعوان قبیلے کے لیے اپنی گوناگوں خدمات دینے والے عظیم ناشاد اعوان، ملک ایس ایچ علوی اور جمشید حر ہیں
۔ ۲۰۰صفحات کو محیط یہ کتاب ۱۲ ابواب پر مشتمل ہے۔ آغاز میں مولف نے ”چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو” کے عنوان سے اپنی بات کی ہے۔ یہ عنوان دراصل مخدوم محی الدین کے درج ذیل ضرب المثل شعر سے اخذ کیا گیا ہے:
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
چلوتو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو لے
مولف اپنی بات میں اس کتاب کے مقاصد بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں: ”اس کا مقصد لوگوں کو رابطے کا ذریعہ مہیا کرنا ہے تا کہ وہ ایک دوسرے کے دست و بازو بن سکیں۔اس کتاب کا مقصد تعصبات سے بالا تر ہو کر لوگوں کے لیے ایک دوسرے کے دل میں محبت اور خدمت کا
جذبہ پیدا کرنا ہے۔”
اس کے ساتھ ساتھ مولف اس بات پر شکوہ کناں بھی ہیں کہ لوگوں کے عدم تعاون کی بدولت یہ کتاب تاخیر کا شکار ہوئی۔ مولف اپنے ان احباب کے بھی سپاس گزار ہیں جن جن کا تعاون کتاب کی تکمیل کے لیے حاصل رہا۔ بعد ازاں ” احوالِ دل ” کے نام سے نثار احمد صائم کی تقریظ شامل ہے۔وہ کتاب کی افادیت کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
” مجلس اعوان جہاں پورے ملک کی اعوان برادری کے افراد کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنے گی وہیں پر چاروں صوبوں بہ شمول آزاد کشمیر کے اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کا ذریعہ بھی بنے گی۔”
”مجلسِ اعوان” پر اگلی تقریظ محمد کریم اعوان علوی قادری کی ہے۔ آپ اس کتاب کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
”مولف نے اعوانوں کی تاریخ کے علاوہ خوب صورت انداز میں اعوان مشاہیر و شخصیات اور بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔”
صفحہ نمبر بارہ سے کتاب کا باضابطہ آغاز ہوتا ہے۔ باب اول میں اعوان تاریخ کا مختصر جائزہ، ہند آنے کے شواہد اور اعوان کی وجہ تسمیہ پر بات کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں اعوان مشاہیر کا تعارف مع تصاویر پیش کیا گیا ہے(یاد رہے تصاویر بالالتزام تمام ابواب میں موجود ہیں)۔ ان مشاہیر میں سلطان العارفین
حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ،بابا سجاول قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، مولانا اسماعیل ذبیح اور مولانا اکرم اعوان وغیرہ کے نام درج ہیں۔تیسرا باب سیاسی شخصیات کے حوالے سے ہے۔ مشتاق احمد غنی اور کیپٹن صفدر اعوان سمیت آٹھ سیاسی شخصیات اس باب کا حصہ ہیں۔باب چہارم اُن اعوان شخصیات کا احاطہ کرتا ہے جنھوں نے سماج میں اپنے وجود کو خلقِ خدا کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ سماجی
شخصیات کے اس باب میں بھی مولف کی محنت عیاں ہے۔ باب پنجم میں علم و ادب کے جن شہ سواروں کو متعارف کروایا گیا ہے ان میں سلطان سکونؔ،بشیر احمد سوزؔ اور قمر الزماں اعوان سمیت چودہ ادبی ستارے شامل ہیں۔باب ششم میں مولف نے میدانِ صحافت کی چند اعوان شخصیات کے کارنامے ضبط تحریر میں لانے کی کام یاب سعی کی ہے۔باب ہفتم ادارہ تحقیق الاعوان کے ان عہدے داران کی زندگیوں کا احاطہ کرتا ہے
جنھوں نے اپنے قبیلے کی فلاح و ترقی کے لیے ہر ہر محاذ پر لبیک کہا۔ محبت حسین اعوان،کریم خان اعوان، شوکت محمود اعوان، ملک شوکت حیات اعوان،عظیم ناشاد اعوان، ڈاکٹر اقبال اعوان، سالک محبوب اعوان، مختصر خان اعوان اور عبداللہ جان اعوان سمیت تیرہ شخصیات اس باب کا حصہ ہیں۔ باب ہشتم میں طب کے شعبے میں اسم رکھنے والے اعوان خدمت گاروں کو متعارف کروایا گیا ہے۔ نواں باب علما و مشائخ کے تعارف پر مبنی باب ہے۔ اس باب میںان حفاظِ قرآن اور علمائے دین کو موضوع بنایا گیا ہے
جو اعوان قبیلے کے چشم و چراغ ہیں۔باب دہم متفرق شخصیات کی حیات کو محیط ہے۔ اس باب میں باسٹھ شخصیات (تاجروں، وکلا، کاری گروں، ہنر مندوں وغیرہ) کا تعارف قاری کو دعوت قرأت دیتا ہے۔ باب یاذدہم مولف نسیم حسن اعوان کے خاندان کا پتا دیتا ہے۔ اس باب میں مولف کے دادا حاجی نور احمد اعوان، والد حسن الدین اعوان اور مولف سمیت خاندان کے دیگر افراد کا تذکرہ ہے۔ باب دواذدہم کتاب کا آخری باب ہے۔
اس میں اٹھہتر اعوان شخصیات کا مختصر تعارف(نام،ولدیت، عمر،پیشہ،پتا،رابطہ نمبر)شامل ہے۔کتاب کے آخری صفحات میں ’’سید اور اعوان بھائی بھائی ‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر موجود ہے جس کا مقصد حضرت علی ؓ کی فاطمی اور غیر فاطمی اولاد کا مضبوط تعلق بتانا ہے۔اس کے بعد روح الحسنین علوی کی ایک نظم بہ عنوان”شبستانِ روشن بہ نام قوم اعوان” درج ہے۔آخری صفحے پر دشتِ تحقیق کے سیاحوں کے لیے کتابیات مرتب کر دی گئی ہیں کہ جن سے کتاب کی تیاری میں معاونت حاصل رہی۔
مجموعی طور پر نسیم حسن اعوان کی یہ کتاب خاصے کی چیز ہے۔ کئی اعوان
شخصیات سے ملاقات اس ایک کتاب نے کروا دی۔ ان کے نام، کارنامے، رابطے،پتے اور سب سے اہم تصاویربھی موجود ہیں۔ بہت قلیل لوگ ہیں جن کی تصاویر شامل نہیں ہو سکیں۔کتاب آشوب کے اس دور میں نسیم حسن اعوان کی یہ کتاب کسی تھل میں جل کی مانند ہے۔امید کرتا ہوں ہمارے اس بھائی کی مجلس سدا بہار رہے گی
اور اس پر کبھی خزاں نہیں چھائے گی۔ قحط الرجال کے اس دور میں نسیم حسن اعوان جیسے افراد کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں۔تاہم ’’مجلس اعوان‘‘ میں کچھ مشاہیر کے نام نہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی۔ جیسے حصہ ادب میں ارشاد شاکر اعوان، ڈاکٹر نذر عابد، محمد ظہیر قندیل، سلمی اعوان، الیاس بابر اعوان، محمد خاں نشتر، زاہد کلیم، آزر عسکری وغیرہ کو شامل کیا جاتا تو ادب والا باب مزید ثروت مند ہو جاتا۔ امید ہے حصہ دوم کی اشاعت حصہ اول سے بھی زیادہ بہترین ہو گی۔ اللہ پاک میرے تمام قلم کاروں کے قلم میں روانی اور روشنائی قائم رکھے۔ (آمین )آخر پر اعوان برادری کے لیے اپنا ایک شعر:
میری نسبت ہے علیؓ سے، ہے نسب میرا وہی
سب صحابہؓ میرے دل میں، اورمحمدؐ ہیں نبی