40

ماضی کے تجربات اور مستقبل کے خدشات !

ماضی کے تجربات اور مستقبل کے خدشات !

پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے جو ارکان جو ڈی سیٹ ہوئے تھے، ان کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا ہنگامہ برپا ہے،مسلم لیگ( ن) اورپی ٹی آئی ان انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں، ایک طرف مسلم لیگ( ن ) بھاری اکثریت سے جیتنے کی دعوئیدار ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کے حریفوں کو امپائر کی حمایت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی تمام نشستیں جیتے گی،میاں شہباز اور عمران خان دونوں ہی امپائر کی حمایت کا خوب تجربہ رکھتے ہیں

اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں امپائر کی حمایت حاصل نہ ہوتی توکبھی اقتدار میں نہیں آسکتے تھے ،جہاں تک عوام کے ووٹ کی بات ہے تو وہ نمائشی ہوتے ہیں، عوام ووٹ کہیں ڈالتے ہیں اور نکلتے کہیں اورسے ہیں،تاہم اس بار ایسا لگ رہا ہے کہ اگر انتخابی نتائج کو دھاندلی سے تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو صورت حال کہیں زیادہ گمبھیر رْخ اختیار کرسکتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ما ضی کے تجربات کی روشنی میں ضمنی انتخابات کے نتایج کے حوالے سے کئی خدشات سر اُٹھارہے ہیں

،تاہم کئی ہفتوں سے جاری سیاسی اور انتخابی جنگ کا منطقی نتیجہ 17جولائی کی رات سامنے آہی جائے گا ،اس انتخابات میںحمزہ شہباز کو اپنی وزارت اعلی بچانے کیلئے نو نشستوں پر کا میابی حاصل کرنا ہے ،جبکہ تحریک انصاف کیلئے بھی سیاسی طور پر اکثریتی کا میابی اہمیت کی حامل ہے ،پنجاب کے ضمنی انتخابات اس موڑ پر آچکے ہیں کہ حسب توقع نتائج نہ آنے کی صورت میں اندشیہ ہے

کہ عمران خان انتخابی نتایج تسلیم کر نے سے ہی انکار کر دیں گے اور الیکشن کمیشن کی منصوبہ بندی اور پو لنگ عملے کی کار کر دگی پر الزامات عائد کرتے ہوئے سٹریٹ پاور کو متحرک ہونے کی کال بھی دیے سکتے ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاںانتخابات میں دھاندلی کو ئی نئی بات نہیں ہے ، یہاں ہر بار انتخابات مین دھاندلی کا تڑکا لگتا رہا ہے ،اس بار بھی حکومت اپنی کامیابی یقینی بنانے کیلئے دھاندلی کا تڑکا ضرور لگائے گی،صوبے بھر میں انتخابی عمل کو یرغمال بنانے کی کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے،تمام تر ریاستی مشینری استعمال کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رائے دہندگان پر دبائو ڈالا جارہا ہے ،سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات درج کئے جارہے ہیں،گر فتاریاں ہورہی ہیں،انتخابی فہرستوں میں گربڑ کی جارہی ہے

، اس سے موجودہ صوبائی حکومت کی گھبراہٹ کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے طاقت کے مرکز کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کرغیر آئینی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے ۔یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ایک طرف مسلم لیگ( ن)ووٹ کو عزت دو کی باتیں کرتی ہے ،آزادانہ شفاف انتخابات کے دعوئے کرتی ہے

تو دوسری جانب ووٹ اور وٹر کی عزت پامال کرنے کے تمام تر ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ،انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے ،تاہم اگر ہیراپھیری سے فتح چرا بھی لی گئی تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ اس بار عوام بے انتہا اشتعال میں ہیں ،اس عوام میں بڑھتے اشتعال پر کیسے قابو پایاجا ئے گا ؟کیا عوام کے جذبات کو پرتشدد ہونے سے روکا جاسکے گا؟ ایک بار جب عوام میں اشتعال بڑھتا ہے

تو اس پر کو ئی حکومت قابو پا سکتی ہے نہ اس بہتے ہوئے لاوے کے آگے پارٹی قیادت بند باندھ سکتی ہے ،اس صورت میں پورے پاکستان میں ناقابلِ تلافی تشدد کی لہر ابھرنے کا حقیقی خطرہ ہے۔
اس وقت ملک کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ،لیکن حکومتی پار ٹی مایوسی کے عالم میں ہر قیمت پر ضمنی انتخابات جیتنے پر تلی ہوئی ہے اور اس کیلئے تمام تر ہتھ کنڈے استعمال کیے جارہے ہیں

،تاہم اس غیر قانونی، غیر منصفانہ اور غیر آئینی طریقوں کے استعمال سے حاصل کی گئی جیت ملک میں افراتفری پھیلا سکتی ہے،لیکن کیا مایوسی اتنی شدید ہے کہ اس طرح کے خدشات کو خاطر میں نہ لایا جائے ، یا انھیں بے بنیاد کہہ کر جھٹک دیا جائے؟اس ضمنی انتخابات کے سلسلے میں عمران خان جہاں بھی طوفانی دورے پر گئے، وہاں عوامی جذبات دیکھنے کو ملے ہیں،ہر طبقے ، ہر گروہ کی جانب سے ایک ہی آواز
بلند ہو رہی ہے اور یہ آواز ساری عوام کو اپنے ملک کی آزادی واپس دلانے اور ان کی عزتِ نفس بحال کرنے کے مشترکہ مقصد پر جمع کررہی ہے، انتخابات کا دن قریب آنے سے اس آواز کی گونج مزید بلند ہوتی جارہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ماضی کے تجربات کی روشنی میںمستقبل کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں،

امید کی جانی چاہئے کہ سبھی عہدے دار اور ان کے سہولت کار پورے ملک کے ماحول سے بخوبی واقف ہیںاور کو ئی ایسی غلطی نہیں دہرائیں گے کہ جس سے عوام کے اندر کا آلائو باہر نکل آئے ،کیو نکہ ایک چھوٹی سی چنگاری بھی اسے جوالہ مکھی بنا دے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں