Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

سیاسی افق پر بے یقینی کے سائے !

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کے بعد ملک میں سیاسی بے یقینی کے سائے کم ہو نے کی بجائے

سیاسی افق پر بے یقینی کے سائے !

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کے بعد ملک میں سیاسی بے یقینی کے سائے کم ہو نے کی بجائے مزید گہرے ہو تے جارہے ہیں،پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کی تبدیلی جہاں ناگزیر لگ رہی ہے ،وہیں وفاق میں گیارہ جماعتوں کی اتحادی حکومت کی بقا پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، تحریک انصاف قیادت وفاقی حکومت پر وقت سے پہلے عام انتخابات کرانے کیلئے دبائو بڑھا رہی ہے،

جبکہ مسلم لیگ( ن )اور پیپلز پارٹی نے ان کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے گی، حکومت قائم رہے گی اور عام انتخابات اگلے سال کے وسط میں ہوں گے، اقتدار کیلئے رسہ کشی کا نتیجہ کیا نکلے گا،اس کے بارے میں فی الحال یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے،کیو نکہ سیاسی افق پر بے یقینی کے سائے کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اتحادی اقتدار میں آنے سے قبل عام انتخابات کا ہی مطالبہ کررہے تھے ،مولانا فضل الرحمن سے لے کر بلاول بھٹواور میاں شہباز شریف تک نے قوم کو یقین دلایا تھاکہ عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ دو ماہ میں عام انتخابات کرائیں گے اور عوام کواپنی آزادانہ رائے سے اپنی مرضی کے نمائندے چننے کا موقع دیں گے، مگر اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے اگلے سال اگست تک

حکومت کرنے کے اعلانات شروع کر دیئے ،عوام نے اسے اپنی توہین سمجھا اور عمران خان کے دعوے پر یقین کیا کہ اتحادی مہنگائی ختم کر نے اورنئے انتخابات کرانے نہیں، بلکہ اپنی چوری بچانے اور امریکی ایجنڈا پورا کرنے کے لیے آئے ہیں۔
تحریک انصاف کے بیانیہ کا ثبوت ہے کہ اتحادی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی عومی مسائل کے تدار کی بجائے احتساب ونیب قوانین میں ترمیم کرنے کو ترجیح دی اور آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے عوام کی زندگی عذاب بنادی ہے، عوام اب اتنے بھولے نہیں رہے ہیں ،عوام سب کچھ جانتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اپنے مفادی ایجنڈے پرتیزی سے کام ہورہا ہے ،اس کے باعث ہی حکمران

اتحاد ی انتخابات میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئے ہیں اور اپنی ناکامی چھپانے کے لیے کبھی مسلم لیگی کارکنوں کے متحرک نہ ہونے کا بہانہ بنایا جارہاہے تو کبھی اتحادی جماعتوں کے عدم تعاون کا شکوہ کیا جارہا ہے اور کبھی کہا جارہا ہے کہ انتخابات میں اپنے نمائندے نہ ہو نے کے باعث ہار دیکھنا پڑی ہے ،جبکہ مسلم لیگ( ن ) نے لاہور اور ڈیرہ غازی خان کے حلقوں میں اپنے دیرینہ اور مضبوط امیدوار اتار کر بھی دیکھا ہے کہ دونوں ہی شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے

کہ عوام اتحادی حکومت سے تین ماہ میں ہی نالاں نظر آتے ہیں ،عوامی موڈ دیکھتے ہوئے ہی مسلم لیگ( ن )قیادت نے شکست کے اسباب پر غور کرنے کی تھی، مگر ابھی تک انتخابی نتائج پر غور کیا گیا نہ ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کے خطرات کا احساس کیا جارہاہے ،کوئی مانے نہ مانے ،پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی کی حکومت قائم ہونے کے بعد شہبازشریف کی سربراہی میں قائم وفاقی حکومت کی سیاسی و معاشی معاملات پر گرفت مزید کمزور ہو جائے گی ،سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہو گا

اور ڈیفالٹ کا اندیشہ بڑھتا چلا جائے گا،تاہم میاں نوازشریف،آصف علی زرداری،میاں شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمن حکومتی مدت پوری کرنے اور عمران خان کے مطالبے پر نئے انتخابات نہ کرنے کی ضد پر قائم ہیں، حالانکہ یہ عمران خان کا نہیں،عوام کا مطالبہ ہے اور قومی استحکام کا تقاضا ہے کہ سیاست نہیں ریاست بچائی جائے، ،مگر قائدین ملت ریاست بچانے کی بجائے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اتحادی حکومت کے سارے دعوئے دھر ے کے دھرے رہ گئے ہیں ،اتحادی حکومت اپنے تین ماہ میں عوام کو کچھ دیے سکے نہ ملکی معیشت سنبھال سکے ہیں ،آئے روز روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے ،لیکن اتحادی انتخابات میں بری طرح ہار نے کے بعد بھی دعوئیدار ہیںکہ عوام میں مقبول ہیںاور دوبارہ جیتیں گے ،ہمارے ہاں ویسے تو سیاست پلٹتے دیر نہیں لگتی ،لیکن اس بار سیاست میں ایک نیا ہی رنگ دیکھائی دیے رہا ہے، اگر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک عام آدمی کو سیاسی شعور کے ساتھ بولنا سکھا یاتھا

توعمران خان نے عام آدمی لڑنے کے ساتھ ’بیلٹ باکس کے ذریعے تبدیلی لانے کا راستہ دکھا دیاہے،اتحادی حکومت عوامی تبدیلی کے بعد اندر سے گھبرائی ہوئی ہے،لیکن بظاہر دکھانے میں کوشاں ہے کہ اسے کوئی گھبراہٹ نہیں ہے ،اس سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کا خاتمہ نئے انتخابات کے انعقاد سے ہی ممکن ہے،حکومت انتخابات کا جلد از جلد اعلان کر کے ہی سیاسی خلفشار اوربے یقینی کی کیفت سے باہر نکل سکتی ہے،بصورت دیگر سیای اْفق پر گہرے ہوتے بے یقینی کے سائے میں سب کچھ ہی ڈوب جائے گااورپھر کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا

Exit mobile version