Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

تخت پنجاب کی جیت میں جمہوریت کی ہار !

پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے، لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں

پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے، لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں

تخت پنجاب کی جیت میں جمہوریت کی ہار !

پاکستان مسلم لیگ( ن) کی اپنی طاقت کے گڑھ، پنجاب میںتحریک انصاف کے ہاتھوں دندان شکن شکست غمازی کرتی ہے کہ وقت کا دھارا تبدیل ہوچکا ہے، اس لہر کا رخ بدلنا اب کم و بیش ناممکن ہے،لیکن وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب میں آخری وقت ڈرامائی تبدیلی سے واضح ہورہا ہے کہ اکثریت کو زبردستی اقلیت میں تبدیل کرکے آئین و قانون کا مزاق اُڑایا گیا ،یہ معاملہ ایک بار پھر قانون کی تشریح اور انصاف کے حصول کیلئے

اعلی عدلیہ کے پاس چلا گیا ہے ،اعلی عدلیہ نے اپنے صائب فیصلوں کے ذریعے سیاسی قیادت کوسیاسی معاملات پارلیمان کے اندر جمہوری انداز سے طے کرنے کے مواقع فراہم کرتی رہی ہے ،مگر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی قیادت پارلیمان کی بجائے عدلیہ سے ہی اپنے سارے فیصلے کرواکر خود ہی پارلیمان کو بے اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔
وطن عزیز گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی کھیل کا اکھا ڑا بنا ہوا ہے ،عوام ایک کے بعد ایک سیاسی تماشا دیکھ رہے ہیں ،گزشتہ روز عوام نے پنجاب اسمبلی میں آئین و قانون کی بے توقیری ہو تے دیکھی ہے ،ایک اکثریت حاصل کر دہ پارٹی کو غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے ہرایا گیا ہے ،تحریک انصاف والے پر امید تھے کہ انہیں برتری حاصل ہے اورووٹنگ کے بعد وزارت اعلی کا منصب ان کی جھولی میں گر جائے گا ،

لیکن اس دوران ہی ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے پاس اچانک مسلم لیگ( ق)کے سر براہ چوہدری شجاعت کا خط آگیا ،اس میں اپنے ارکان کو پرویز الہی کو ووٹ نہ دینے کی ہدایت کی گئی تھی ،مگراس سے قبل ہی( ق)لیگ کے ارکان پر ویز الہی کوووٹ کاسٹ کر چکے تھے ،ڈپٹی سپیکر نے چوہدری شجاعت کے خط کو بنیاد بناکر( ق)لیگ ارکان کے سارے ووٹ مسترد کر دیئے اور ایک جیت کو ہار میں تبدیل کر دیا گیا

،اس تخت پنجاب کی جیت میں جمہوریت کی ہار نظر آرہی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ا س سارے سیاسی کھیل میں سامنے تو ڈپٹی سپیکر نظر آرہے ہیں ،لیکن اس بازی کو یوںاچانک پلٹنے میں بنیادی کر دار سابق صدر آصف علی زرداری نے ادا کیا ہے ، انہوں نے چوہدری شجاعت سے اپنے مقصد میں کامیابی تک ملاقاتیں جاری رکھیں،ویسے بھی انہیں جوڑ توڑ کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور انہوں نے ثابت کیا ہے

کہ ایک زرداری سب پر بھاری ہے ،یہ سیاسی کھیل ایک فائول پلے کے زریعے بظاہر ختم ہو گیا ،لیکن تحریک انصاف قیادت خاموش نہیں بیٹھے گی،انہوں نے عدالت میں جانے کے ساتھ احتجاج کا بھی اعلان کر دیا ہے ،اس کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام ،کشیدگی اور انتشار کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔
اس وقت ملک سیاسی عدم استحکام کے باعث انتہائی معاشی بد حالی کا شکار ہے ،لیکن سیاسی قیادت قومی مفاد کا ادراک کرنے کے بجائے ذاتی مفاد کو تر جیح دیے رہے ہیں ،سیاسی قیادت حصول اقتدار میں دست و گریباں ہیں ،اس سیاسی کشمکش کے باعث ملک کا جو معاشی نقصان ہو رہا ہے ،اس کی کوئی پرواہ نہیں،

ساری سیاسی جماعتیں اپنے ہی کھیل تماشے میں مصروف ہیں ا،ایک طرف ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی اپنی قدر کھوتی جارہی ہے تو دوسری جانب مہنگائی کا طوفان بر پا ہے،عوام بڑھتی مہنگائی کے بو جھ تلے مرے جارہے ہیںاور سیاسی قیادت جمہوریت کے نام پر کھیل تماشے میں لگے ہو ئے ہیں،اس جمہوری تماشے نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے،ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے ،لیکن سیاسی کھیل ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ایک بعد ایک سیاسی تماشا لگایا جارہا ہے

،اس کھیل تماشے کو تین چار ماہ سے دیکھتے ہوئے عوام گھبراچکے ہیں اور سوچنے پر مجبور ہیں کہ سیاسی قیادت کو ملک وعوام کی کوئی پرواہ نہیں ،انہیں صرف حصول اقتدار سے ہی غرض ہے، اس تخت پنجاب کی جیت میں جمہوریت کی ہار ہوئی ہے ،یہ حالات کا تقاضا ہے کہ حکمران اپنے طور طریقے تبدیل کریں

اور ملک کو اس انداز میں چلائیں کہ جو قومی سیاست، جمہوریت اور آئین سمیت قانون کی حکمرانی نظر آئے، اہل سیاست کو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت عوام کی بڑی تعدادحالات سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کو آگے بڑھنے کے لیے امید کے ساتھ عملی سیاست درکار ہے، انہیں یقین دہانی چاہیے کہ اہل سیاست اپنے مفادات سے زیادہ عوامی مفادات کو تر جیح دیں گے ،اگر ریاستی نظام میں ریاست،

حکومت اور عام آدمی کا مقدمہ کمزور ہو جائے تو اس کا براہ راست اثر ریاستی نظام کی کمزوری کی صورت میں سامنے آتا ہے ،جبکہ اس کے مقابلے میں ہمیں قومی سطح پر ایک مضبوط سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی سمیت منصفانہ اور شفاف نظام درکار ہے ،لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے کہ جب اس ملک میں جاری سیاست کا کھیل تماشا بند ہو گا اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کو نمایاں حیثیت دی جائے گی۔

Exit mobile version