پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے، لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں 71

سیاسی انتشار میں مفاہمت کی ضرورت !

سیاسی انتشار میں مفاہمت کی ضرورت !

پنجاب میں تین ماہ سے جاری سیاسی بحران وزیر اعلیٰ کے منصب کیلئے دوبارہ کرائے گئے انتخاب میں حمزہ شہباز کی ازسرنو کامیابی کے بعد بھی ختم نہیں ہوا،بلکہ مزید پیچیدہ اور گمبھیر ہوگیا ہے،ملکی سیاست میں ایک دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے ،اس ساری دھما چوکڑی میں پارلیمانی سیاست، جمہوری اقدار اور آئینی بالادستی کا جنازہ نکل رہاہے

،ایک سیاسی بحران عمران خان کے خلاف قبل از وقت عدم اعتماد کے کامیاب ووٹ سے شروع ہوا تھا، وہ اب پنجاب کی سیاست کے سنگھا سن کو ہلا رہا ہے،اس کے سنگین نتائج آئندہ دنوں میں ملکی سیاست کے ساتھ معیشت کے لیے بھی مہلک ترین مضمرات کے ساتھ ظہور پذیر ہوں گے۔
اس میں شک نہیں کہ ایک طرف ملک میںسیاسی تماشہ لگا ہے اور دوسری جانب ملکی معیشت ڈوب رہی ہے

،پا کستانی روپے کی قدر میں پچیس فیصدگراوٹ آچکی ہے اور یہ سلسلہ بلاروک ٹوک جاری ہے ، سٹاک مارکیٹ کا حال اس سے بھی مندا ہے ،جبکہ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے قرض بحالی کا معاہدہ طے پانے کے باوجود خدشات بدستور بر قرا ہیں ،دیوالیہ پن کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے اور دنیا سر لنکا اور پاکستانی معیشت کو ایک نظر سے دیکھنے لگی ہے ،اس بد ترین معاشی حالات کی ذمہ داری ملک میںجاری سیاسی بحران پر عائد ہوتی ہے، جوکہ اس وقت سیاسی رہنمائوں کی سب سے بڑی مصروفیت بن چکا ہے ۔
اس صورت حال سے جتنی جلد جان چھڑائی جائے ملک وقوم کیلئے اتنا ہی مناسب ہو گا ،اس سلسلے میں سیاسی رہنمائوں سے گزارشات کافی نہیں ،وقت کا تقا ضہ ہے کہ بچائو کے خصوصی بندوبست کی غرض سے ریاست کے سبھی ذمہ داروں کو بروئے کار آنے کی استدعا کی جائے ،یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اس مدھم چنگاری کو روشن کیا جائے اور ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کرنے کی حمایت کی جائے

کہ جس میں سیاسی کشیدگی کو کم کیا جاسکے ،بے یقینی کی فضا ملکی معیشت اور سماج کیلئے یکساں خطرہ بنی ہوئی ہے ،اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ سارے سیاسی فریق ملک وقوم کے بہتر مفاد میں ایک دوسرے کیلئے گنجائش پیدا کریں اور ایک دوسرے کے وجود کو بھی تسلیم کریں ،سیاسی رہنمائوں میں اختلافات کی نوعیت اپنی جگہ ،مگر مذاکرات کا امکان بہر حال بر قرار رہنا چاہئے۔
یہ وقت سیاسی محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کا ہے ،سیاسی قائدین بھی وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہیں ،مگر ذاتی اَنا آڑے آرہی ہے ،سیاست میں اَنا اور خود پسندی آڑے آ جاتے ہیں تو بنا بنایا کھیل بھی بگڑ جاتا ہے، اگر غور کیا جائے تو ہمارے بیشتر مسائل کی وجہ یہی ہے، سیاست دان اسی کے باعث اپنے دائروں میں مقید ہو چکے ہیں اور مسائل ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں، ہر سیاست دان اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے

کہ ملک میں سیاسی بے چینی اور بے یقینی کی وجہ سے معیشت ڈانوا ڈول ہے، مگر کوئی بھی قدم آگے بڑھا تے ہوئے اقدام کرنے کو تیار نہیں ہے،اگر راستہ تلاش کیا جائے تو نکل ہی آتا ہے، مگر یہاں ہر کوئی راستہ بند کیے بیٹھا ہے،اگر ڈیڈ لاک اس بات پر ہے کہ ملک میں جلد عام انتخابات ہونے چاہئیں تو کم از کم اس پر بات تو ہونی چاہیے، مذاکرات ہوں گے تو کوئی قابل ِ قبول حل بھی نکل ہی آئے گا۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک میں بڑھتے سیاسی ومعاشی بحران کے پیش نظر ریاستی ادارے بھی حرکت میں آئے ہیں اور مفاہمت کیلئے کائوشیں کرنے لگے ہیں ،یہ اب حکمران اور اپوزیشن قیادت کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کی مخلصانہ کائوش کا میاب بنائیں اور سیاسی انارکی پھلانے سے گریز کریں،کیو نکہ ملک دن بدن سیاسی ومعاشی دلدل میں دھنستا
جارہا ہے ،اگرملک سیاسی بحران کے باعث معاشی دیوالیہ ہوگیا تو پھر کوئی حکومت چل پائے گی نہ ملک سنبھل پائے گااور کوئی مقتدرہ کا فار مولہ بھی کام نہیں آئے گا،اس لیے حکومت کو چاہئے کہ اپوزیشن قیادت کو معاشی سلامتی و بحالی اور آئندہ صاف و شفاف انتخابات پہ کھلے ایجنڈے اور کھلے دل کے ساتھ دعوت دے، پی ٹی آئی قیادت بھی ایک طرف توپنجاب کی حکومت لینے بے چین ہے

،لیکن دوسری جانب قومی اسمبلی میں واپس جانے میں تذب ذب کا مظاہرہ کررہے ہیں ،اگرسیاسی قیادت آئینی و پارلیمانی دائرے میں رہنا چاہتے ہیں اور اسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر دیر یا سویر بات چیت کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں