پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے، لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں 38

رہے گابانس نہ بجے گی بانسری !

رہے گابانس نہ بجے گی بانسری !

پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت کے اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اور ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت اپنی آئینی مدت تک کام کرتی رہے گی، لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور دیگر کئی رہنما اب بھی اس بات پر دلالت کر رہے ہیں

کہ اسمبلیاں تحلیل کرکے فوری انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جائے، کیونکہ ملک کا موجودہ سیاسی ومعاشی بحران حل ہوتا نظر نہیں آرہا اور یہ بحران مسلم لیگ( ن) کی رہی سہی سیاسی مقبولیت کو بھی نگل جائے گا۔
اس میں شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں ایک بڑی تعداد حکومت چھوڑنے اور فوری انتخابات کرانے کے حامی ہے ،ان کا خیال ہے کہ انہیں اقتدار دیے کرایک جال میں پھنسایاگیا ہے،جبکہ شہباز حکومت اپنے ہی بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود ماننے کیلئے تیار نہیں ہے ،میاں شہباز شریف خوش فہمی میں مبتلا ہیں

کہ درپیش سیاسی و معاشی بحران سے نکلنے میں کا میاب ہو جائیں گے،جبکہ حکومت سے معیشت سنبھل نہیں رہی ہے، روپیہ مسلسل گر رہا ہے اور ڈالر اُوپر ہی چلے جارہا ہے،یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اسحق ڈار واپس آکر ڈالر کی اْڑان روکنے کی کوشش کریں گے اور معیشت کو سنبھالا دیں گے ،لیکن وہ حکومت کی کشتی ڈولتی دیکھ کر آتے آتے رْک گئے ہیں۔میاں شہباز شریف جتنا مرضی خوش فہمی میں رہیں،

لیکن حکومت کی کشتی واقعی ڈول رہی ہے، ملک میںصنعتیں بند ہورہی ہیں،بیروزگاری بڑھ رہی ہے، مہنگائی آسمانوں سے بھی آگے چلی گئی ہے، پٹرول اور گیس کے بارے میں وزیراعظم نے یہ کہہ کر ہاتھ اْٹھا دیا ہے کہ ان کی قیمتیں ان کے اختیار میں نہیں ہیں،اگر دیکھا جائے تو کچھ بھی ان کے اختیار میں نہیں ہے،

ان کا ریموٹ کنٹرول لندن میں میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہے اور حکومت ان کی ہدایات کے مطابق چلائی جارہی ہے ہیں،میاں شہباز شریف ایک طرف اپنے بڑے بھائی کی ہدایات پر عمل پیراں ہیں تو دوسری جانب حکومت میں شامل چودہ جماعتوں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ،لیکن کوئی بھی اندرسے خوش نہیں ہے۔
اتحادی حکومت میں گیارہ سیاسی قائدین اپنے مفادات کے پیش نظر متحد ہیں ،وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت گئی تو سب ہی گرفت میں آجائیں گے ،اس لیے اختلاف کے باوجود حکومت چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،اتحادی اقتدارچھوڑ بھی نہیں رہے اور حکومت کا مکمل طور پر ساتھ بھی نہیں دیے رہے ہیں ،

اس لیے سارابوجھ مسلم لیگ (ن)کو ہی اکیلے اُٹھانا پڑ رہا ہے ،ایک طرف شہباز حکومت سارا بوجھ اُٹھا رہی ہے تو دوسری جانب سارے جھٹکے بھی کھارہی ہے،شہباز حکومت کو سب سے بڑا دھچکا پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت جانے سے لگا ہے، باپ نے بیٹے کی حکومت بچانے کی پوری کوشش کی تھی،

لیکن کوئی بس نہ چل سکا، اب سارا ملبہ عدلیہ پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔میاں نواز شریف کا عدالت عظمیٰ کے تینوں ججوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ان کے فیصلے سے پوری دنیا میں پاکستان کی رسوا ئی ہوئی ہے،جبکہ ناقدین کہہ رہے ہیں کہ اس سلام کے مستحق تو خود میاں صاحب ہیں کہ جنہوں نے اپنے دور حکومت میں عدالت عظمیٰ پر حملہ کر کے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا تھا،تاہم اب شہباز حکومت کی کوشش ہے کہ اس فیصلے کے ردعمل میں عدلیہ کے اختیارات سلب کرلیے جائیں

اور اسے نیب کی طرح بے دست و پا بنادیا جائے، اس منصوبے پر کام شروع کر دیاگیا ہے، ایک طرف آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری جانب عدالت اور بار کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے ۔اس ساری کہانی میں آصف زرداری کا کردار بہت ہی دلچسپ اور پْراسرار رہا ہے، ایک طرف انہوں نے حمزہ
شہباز کی حکومت کو بچانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی، بار بار چودھری شجاعت کے پاس جاکر ایک ایسا خط حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے کہ جس میں (ق) لیگ کے ارکان اسمبلی کو اپنے ہی امیدوار چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ دینے سے روکا گیا تھا،لیکن اس سارے ڈرامے کا رزلٹ حسب توقع نہ آیا

توخاموشی سے دبئی چلے گئے، اب واپس آئے ہیں تو کورونا میں مبتلا بتائے جاتے ہیں، دوسر جانب آصف علی زرداری کا ایک انٹرویو سوشل میڈیا پر چل رہا ہے کہ جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ میاں برادران کو تھکا تھکا کر ماریں گے،شاید چودھری شجاعت کا خط بھی اسی کوشش کا حصہ تھا،آصف علی زرداری بہت باریک چال چلتے ہیں، وہ اِس وقت (ن) لیگ کی حکومت میں شامل ہو کر اسے تھکانے میں مصروف ہیں،حکومت تھک کر بے دم ہوجائے گی توآصف زرداری بھی قرنطینہ سے باہر نکل آئیں گے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس تنزلی کے سفر میں مسلم لیگ( ن)کے خلاف صرف سازش ہی نہیں ہوئی ،بلکہ اس میں اپنی غلطیوں کے ساتھ اپنے ہاتھوں کی کمائی بھی شامل ہے ،میاں شہباز شریف سمجھ رہے تھے کہ شاید ان کیلئے اقتدار میں آنے کا آخری موقع ہے ،انہوں نے اپنے ساتھ حمزہ شہبازکو بھی پنجاب کا وزیر اعلی بنا دیا گیا ،ایک کے بعد ایک غلطی ہوئی ،لیکن نواز شریف نے بھی کوئی سیاسی بصیرت نہیں دکھائی ،

اس لیے اپنی کوتاہیوں کا خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا ،ہماری دانست میں مسلم لیگ (ن)دوسروں کے ہاتھ کا کھیلونا بن کر ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہے ،اسے جس قدر طول دیا جائے گا ،خسارے کا باعث ہی ہو گا،اس وقت سب سے بہتر آپشن یہی ہے کہ آصف زرداری اور مولانا کے چنگل سے نکلتے ہوئے

حکومت سے الگ ہو جائیں اورمیاں نواز شریف وطن واپس آکر اپنے بیانیے کے ساتھ الیکشن میں اُتریں ،بصورت دیگر عمران خان کا اینٹی امریکن کارڈزور شور سے چلے گا ،پھر نہ رہے گا بانس اور نہ ہی کوئی بانسری بجے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں