33

قدرت کی ہماری محتاج نہیں،انسان قدرکے محتاج ہوتے ہیں

قدرت کی ہماری محتاج نہیں،انسان قدرکے محتاج ہوتے ہیں

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

ہزاروں لاکھوں سال سے قدرت کا ایک نیم قانون ہے موسم گرما و سرما و برسات کا وقت متعین۔ اللہ کا نظام ہے کہ چرند پرند درند و حشرات الارض جنگل و بیاباں کہ درخت و پودوں کا پاس و لحاظ قدرت کو گر نہ ہوتا تو، حضرت انسان کی سرکشی کی وجہ سے آسمان سے پانی برسانا موقوف کردیا جاتا۔ عموما دیکھا گیا ہے

کہ پہاڑ و جنگل و بیاباں میں بڑے زوروں کی بارش ہوتی ہیں اور وہی پانی ندی نالوں کی صورت آبادیوں سے گزرتا ہوا ڈھلان جگہوں میں سے کچھ عمیق و گہری جگہوں پر پانی جمتے ہوئے، بڑے بڑے تالاب معرض وجود میں آجاتے ہیں۔ باقی پانی ندی نالوں سے بہتا ہوا سمندر میں مل جایا کرتا ہے۔

سورج کی کرنوں کی تپش اور گرمی کی شدت سے، سمندر کا پانی بھاپ بن کر ہواؤں کے دوش بادلوں کی شکل آسمانون میں گردش کرتا رہتا ہے اور بحکم خدا بجلی کی کڑک و گھن گرج کے ساتھ بادل پھٹ کر، بارش کی شکل واپس دنیا میں برستے لگتا ہے۔

جنگلوں پہاڑوں پر برسنے والا پانی، ڈھلان پر راستہ بناتے بہتے نیچے آتے، ندی نالے یا تالاپ کی شکل لے لیا کرتا ہے۔ عالم بھر میں جدت پسند صنعتی ترقی پزیری نے، گاؤں دیہات سے کروڑں کی تعداد لوگوں نے، شہروں کی طرف تنقل پزیری کو عام معمول سا بنا دیا ہے اور شہری آبادی اضافے نے، نئی آبادیاں بسانے کے چکر میں، ہزاروں لاکھوں سال سے جنگل و بیان سے بارش پانی کے بہنے والی راہداریوں پر،نئی تعمیرات بسا، گویا ایک طرف قدرتی پانی کے بہاؤکے راستوں پر بند باندھ دئیے ہیں

، وہیں پر موسم گرما میں سوکھے قدرتی تالابوں کو پاٹ پاٹ کر، وہاں آبادیاں بسا دی ہیں۔ ویسے عموما”ہر سال گرنے والی بارش سے،بہت زیادہ فرق پڑا محسوس تو نہیں ہوتا ہے، لیکن قدرت کے احسانوں کو بھولتی انسانیت کو،اپنی لاتسخیر قوت کا مظہر درشانے، ہر دس بیس سال کے وقفے وقفے بعد، جب قدرت رحمت کی شکل والی بارش کو کچھ زیادہ فراخ دلی سے دنیا والوں پر نچھاور کرتی ہے

تو رحمت والی بارش انسانیت کے زحمت بن جاتی ہے۔جنگل و پہاڑوں پر جم کر برسنے والا پانی، ڈھلوانوں سے گزرتا اپنی ہزاروں سالہ سابقہ راہداریوں کو مفقود پاتا ہے تو قُدرت کی عطا کی ہوئی طاقت سے وہ اپنا راستہ بنالیتا ہے۔2 اگست شمالی کینرا بھٹکل کی بارش سے آئی شہری سیلابی تباہی، ہمیں اپنی شہری منصوبہ بندی کی خامیوں کو اجاگر کر جاتی ہے۔ بھٹا گاؤں مکل کاٹے پہاڑی پر برسنے والا پانی جو،

جین مونی بستی مندر کے پاس والے کھیت سے ہوتے ہوئے پٹا وھال سے جس آسانی سے سابقہ بیسیوں سالوں سے گزرا کرتا تھا اور مٹللی پہاڑوں سے بہتا پانی شرواتی ندی کی شکل شاہدلی مسجد ، ڈارنٹا ندی مشما و خلیفہ مسجد کے پیچھے سے جو آسانی سے بہہ جایا کرتا تھا ابھی دس ایک سال قبل ریلوے لائیں و نیشنل ہائی وے بچھائے جاتے وقت ایک دو ندیوں پر پل تعمیر کئے، عام برساتی موسم بہنے والے بارش پانی بہاؤکے راستے،گویا منقطع کئے جاچکے ہیں کچھ اسی طرح سے ساگر روڑ و نوائط کالونی کورٹ بلڈنگ کے پیچھے والے ہورلی سال پہاڑی سے، برسات کے دنوں بہنے والے پانی کے راستوں پر،

جالی روڑ، آزاد نگر اور سلفی مسجد کے متصل سلمان آباد اور مسقط کالونی آباد ہونے سے، اور پیٹرو ڈالر قوت سے بنی خلیجی تارکین وطن رہائشوں کی چہاردیواروں والی رکاوٹ سے، پریشان حال بہتا پانی ،ہائی وے سے بہتے، ان کالونیوں کی تنگ گلیوں سے گھروں میں گھستے ہوئے، بندر روڑ سکینڈ اور تھرڈ کراس کے پچھلے حصے میں، زمانے قبل سے موجود گپتی تالاب تک پہنچنے کی جستجو کرتا پایا جاتا ہے۔

اسی لئے، آزاد نگر، سلمان آباد اور مسقط کالونی کی گھروں میں اور پرانے بھٹکل مونی بستی مندر کے متصل پٹا وھال پانی راہداری کے آس پاس گھروں کے، ایک سرے سے برساتی پانی کاریلا داخل ہو، دوسری طرف سے نکل کر، فقراء و مساکین کے لئے صدا اپنے گھروں کے دروازے بند رکھنے والے جدت پسند ہم انسانوں کو، اپنی اوقات یاد دلا جاتا ہے۔ خلیجی پیٹرو ڈالر سے بنےکانکریٹ جنگل، آزاد نگر ، سلمان آباد،

مسقط کالونیاں تعمیر کر، ہم شاید سابقہ بیس تیس سالوں دوران نصف صد سال قبل برساتی دنوں یہاں بننے والے وسیع وعریض وقتی پانی تالابوں کو شاید بھول چکے ہوں؟ لیکن قدرتی پانی ہزاروں سال سے ،اپنے گزرنے والی راہداریوں کو تھوڑی نا بھول پاتا ہے؟ وقت ضرورت وہ اپنا راستہ خود بنا ہم جدت پسند آنسانوں کو متحیرالعقل کر جاتا ہے

یہی کچھ حال ھند و عالم کے دوسرے شہروں کا، وقت وقت سے دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ ابھی کچھ سال قبل 25 نومبر 2009 جدہ آئے سیلابی تباہ کاری کا سبب بھی پہاڑیوں پر،ہر دس بیس سال کے وقفہ سے،کبھی کبھی جم کر برسنے والے پانی رہلے کی ،راہداریوں پر آباد کنکریٹ کے جنگل کالونیوں کی وجہ سے، اپنی پرانی راہداریوں کو ڈھونڈتا برساتی پانی کا رہلا، اچانک شہری حدود میں داخل ہوتے ہوئے،

دوکانوں گھروں میں گھس کرں تباہی مچا چکا تھا۔ یہی کچھ حیدر آباد ممبئی ، گجرات و شمالی ھند کے بیشتر شہروں میں دیکھنے کو ملا کرتا ہے ۔ اور ایسا ہی کچھ شہر بھٹکل میں برساتی پانی کا ریلا دوکانوں گھروں کو روندتا ہزاروں لوگوں کو لاکھوں کا نقصان پہنچا چکا ہے۔ بھٹکل جغرافیائی اعتبار سے ساحل سمندر کنارے ڈھلان پر واقع ہونے کی وجہ سے، کچھ گھنٹوں میں انسانی آبادی خالی کر پانی کا ریلہ اپنے اصل مستقر سمندر میں جا مل چکا ہے لیکن ان چند گھنٹوں میں قدرت نے، انسانوں کے ایک طبقہ کو اس برساتی ریلے سے متاثر کر، انہیں نقصان زد کرتے ہوئے، انہیں آزمائش کاشکار جہاں بنادیا ہے

تو دوسری طرف اپنی دیوہیکل لاتسخیر کوٹھیوں کی بدولت قہر آب برسات سے، محفوظ رہنےوالے، غیر متاثرین طبقہ کو، اپنے متاثرین بھائیوں کی کس نوع مدد و نصرت کرتے ہیں یہ دیکھنے انہیں پرکھنے، آزمائش کی گھڑیوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وقت کا رخم ہر صورت بھر جاتا ہے، لیکن اپنے برے وقت کے مشکل کشا چہروں سے متعارف ضرور کروا جاتا ہے۔

ایک بات کی وضاحت ہم یہاں ضروری سمجھتے ہیں۔ خلیج کے ریگزاروں میں نئے آباد کئے جانے والے گاؤں شہروں کے تخلیق کرنے والوں کی منصوبہ بندی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ہمیں ملا ہے۔ سعودی شہر ریاض کے آس پاس آباد نئے شہر نؤ آبادیات ہوں یا ابھی جارڈن مصر سعودیہ تین ملکی سرحدوں پر نیا آباد کیا جانے والا، ولی عہد محمد بن سلمان آل سعود کے “وزن 2030” نیؤن شہر ہی کیوں نہ ہو،نہر تالاب و دریا سے ماورا اس ریگزار میں بھی، وہ ماحولیات کو معتدل و انسان دوست بنانے رکھنے کے لئے،

اربوں ڈالر صرفے سے بناوٹی (آرٹیفیشیل) نہریں و تالاب تک بنالیتے ہیں۔ جنگل و بیاباں و پہاڑی تسلسل والے چمنستان بھارت میں، تین چار مہینوں پر مشتمل برساتی موسم اور بہتے ندی نالوں اور شہر کے بیچوں بیچ قدرت کے وضع کئے تالابوں کی وجہ سے شہری آبادی کے زیر زمین قدرتی پانی کی جھریاں بکثرت بہتی پائی جاتی ہیں اور بیس تیس فٹ کنوئیں کھود کر تازہ و ٹھنڈہ صحت بخش پانی سال کے 365 دن دستیاب ملا کرتا ہے۔ لیکن ان تیس چالیس سالہ خلیجی پیٹرو ڈالر بہتات نے،گھر و کوٹھیاں تعمیر کرنے

زمین کے ٹکڑوں کی بازیابی مشکل تر ہوتے تناظر میں، زمانے سے آباد تالاب یا برساتی پانی جمع ہو وقتی بننے والے، بڑے بڑے تالاب، یاٹ پاٹ کے وہاں بستیاں بنائی جاچکی ہیں اور خود رو چوڑی ندیوں نالوں کوتنگ راہ گزر میں تبدیل کئے، کناروں پر عالیشان محلات تعمیر کئے جاچکے ہیں اسی وجہ سے شہری علاقوں کے تالابوں میں جمع ہو سال بھر زمین میں جذب ہوتے رہنے والا پانی، دریائی راہ گزر سے

سمندر میں جا ملنے کی وجہ سے، شہری زمینوں کے نیچے پائے جانے والے پانی کی گہرائی،سال در سال گہری اور گہری ہوتے ہوئے، نصف صد سال قبل بیس تیس فٹ نیچے کنوئیں میں دستیاب ہونے والا پانی، اب سو ڈیڑھ سو فٹ زیر زمین سے بور ویل کے ڈریعہ حاصل کیا جانے لگا پے۔ اور یہی حال رہا تو ہوسکتا ہے اگلے پچاس سو سال بعد والی ہماری آل کو، زیر زمین پانی حاصل کرنے کے لئے،سو ڈھائی سو فٹ گہرے بور ویل کھودنے پڑیں گے۔اسلئےشہرواسیوں سے، درخواست و التجا ہے کہ گاؤں شہر میں زمانے سے موجود تالابوں کو پاٹ پاٹ کر، اپنے رہائشی گھر تعمیر نہ کیا کریں اور نہ ہی ندی نالوں کے

آس پاس زمینوں کو پاٹ کر گھر تعمیر کرنے کے چکر میں، برساتی پانی ریلوں کی راہداریوں کو تنگ و سکیڑ کر نہ رکھ دیا کریں۔ تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو آج کے جیسے برساتی پانی ریلوں کی تباہ کاری دیکھنے کو ملے۔ ثانیا عرض ہے جہاں پر کروڑوں کے صرفے سے، اپنے لئے رہائشی محلات ہم تعمیر کرتے ہی ہیں،

ہر گھر کے مستعمل ویسٹ پانی کو گٹر میں بہانے کے بجائے، ہر گھر کمپاؤنڈ کے اندر، ایک الگ سے گہرا کنواں کھود کر، اس مستعمل ویسٹ پانی کو، اس کنوئیں کے راستے،زیر زمین جذب کروائیں تاکہ شہری آبادی کے نیچے صدا پانی موجود رہے اور ہماری آل کو مستقبل میں پانی دستیابی مشکل تر عمل نہ ہو۔ وما علینا الا البلاغ،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں