34

سپرپاور میں جنگ کے بڑھتے خدشات

سپرپاور میں جنگ کے بڑھتے خدشات

امریکا نے روس کے بعدچین کو بھی مشتعل کرنا شروع کر دیاہے، امریکی اشتعال انگیزی کے ردِعمل میں روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور اب چین کو بھی اکسایا جارہا ہے کہ تائیوان پر حملہ کر دیے ،چین کی جانب سے واضح الفاظ میں خبردار کرنے کے باوجود امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی تائیوان کے دارالحکومت تائی پے پہنچ گئی ہیں، تائیوان کے معاملے پر چین بہت حساس ہے، چین کا کہنا ہے

کہ امریکی اسپیکر پلوسی کا مذکورہ دورہ چین کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی ہے، چین سمجھتا ہے کہ پلوسی کا یہ دورہ اگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اور امریکہ کو اس شر انگیزی کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔اس میں شک نہیں کہ امریکا سپر پاور ہونے کے باعث اپنے مفادت کے پیش نظر دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے ،امر یکا کی مداخلت کے ہی باعث روس ،یوکرین ایسی جنگ چھڑی ہے کہ بند ہونے کا نام ہی نہیںلے رہی ہے اور اب چین ،تائیوان کو مشتعل کیا جارہا ہے ،

یہ عالمی جنگ میں بھی بدل سکتی ہے ، مریکا اور چین کے در میان سرد جنگ عرسے سے جاری ہے، اس جنگ کا مرکزی موضوع عالمی تجارتی شاہراہ بی آر ٹی کا چینی منصوبہ ہے کہ جس کا ایک حصہ سی پیک بھی ہے جو پاکستان کی ساحلی بندرگاہ گوادر سے گلگت بلتستان اور کاشغر کے ذریعے چین تک جاتا ہے،امریکا اقتصادی طور پر چین کو روک نہیں پارہا تو تائیوان میں کشدگی بڑھا کر جنگ کے ذریعے روکنے کی کوشش کررہا ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تنائو کی وجہ سے ہی چین نے ابنائے تائیوان میں فوجی مشقوں کا سلسلہ شروع کیا ہے،امریکا کے بھی جوہری طاقت سے لیس بحری جنگی بیڑہ فلپائن کے پانیوں میں موجود ہے، دو طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی موجودگی اور چین کی دھمکیوں کے باوجود نینسی پلوسی کا دورئہ تائیوان کا مقصد یہی محسوس ہوتا ہے کہ چین کوزبردستی مشتعل کیا جائے اور ایک نیا محاذ جنگ کھول دیا جائے

،امریکی سیاست دان چینی سیاسی قیادت کے بیانات نظر انداز کر کے آگ سے کھیل رہے ہیں، اس کے امریکا چین تعلقات پر شدید نوعیت کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں،چین نے امریکا سے سخت زبان میں احتجاج کرنے کے ساتھ اپنی فوجوں کو چوکنا اور خبردار رہنے کا حکم دے دیا ہے،اِدھر روس نے بھی امریکی اسپیکر کے دورئہ تائیوان کی مذمت کردی ہے اور اسے اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پلوسی کا دورہ تائیوان کوئی عام دورہ نہیں ہے ،اس دورے کا مطلب تائیوان کو تھپکی دینا ہے

کہ چین سے علاحدگی اور خودمختاری کے لیے اقدامات کرے، اس کے لیے اسے امریکی فوجی مدد حاصل رہے گی،امریکا ایک طرف چین کو چنگ کیلئے اکسا رہا ہے تو دوسری جانب اس جنگ کو جمہوریت اور آمریت کی جنگ بنارہا ہے، امر یکہ ایک کے بعد ایک جنگ چھڑنے میں لگا ہے ، ابھی بحر اسود میں امن قائم نہیں ہوا کہ انڈوپیسفک میں جنگ کے محاذ کو گرم کیا جارہا ہے،اگر چین اور تائیوان کی جنگ چھڑ گئی تو اس سے ایک خطہ ہی نہیں، پوری دنیا متاثر ہوگی،لیکن امریکا اپنی اندرونی کمزوریاں اور خلفشارچھپانے کیلئے بیرونی جنگ کو ہوا دیے رہاہے ۔امریکا دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے

بڑی مشکل سے نکلا ہے، ایک معاہدے کے نتیجے میں امریکی ا فواج نے افغانستان سے انخلا کیا ہے،لیکن ایک بار پھر افغانستان کے معاملات بھی خراب کررہاہے،امریکی صدر جوبائیڈن نے کابل میں ڈرون حملے کی منظوری دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ اسامہ بن لادن کے جانشین اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو شہید کردیا ہے،افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان نے اس حملے کو عالمی قوانین اور
دوحا معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے،اس کا مطلب ہے کہ امریکا نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا ہے،امریکا ایک طرف روس کے بعد چین کو مشتعل کررہا ہے تو دوسری جانب افغانستان پر درائون حملے بھی کروارہا ہے، اگرعالمی سپر طاقتوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں کسی نئی جنگ کے شعلے ہمارے پڑوس میں بڑھکتے ہیں تو اسکے منفی اثرات لامحالہ پاکستان پر بھی پڑیں گے، ہمیں اس حوالے سے خارجہ محاذ پر انتہائی سمجھداری اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو بچانے کی اشد ضرورت ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں