عوام ابھی بجلی کی قیمت میں اضافے کا جھٹکا برداشت نہیں کر پا رہی تھی کہ حکومت نے ایک بار پھرپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں 56

معاشی اشارے اور عوام

معاشی اشارے اور عوام

اتحادی حکومت کو بیک وقت متعدد بحرانوں کا سامنا ہے،لیکن ان میں سب سے اہم ملکی معیشت کا بحران ہے کہ جس میں سے جلد از جلد نکلنا انتہائی ضرورہے ،اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے کہ وہ معاشی استحکام کیلیے کوئی انقلابی اقدامات اُٹھاتے ہیں کہ حسبِ سابق ماضی کی حکومتوں کی طرح مزید غیر ملکی قرضے لینے کی راہ اپناتے ہیں،اتحادی حکومت نے بھی آسان راستے کا انتخاب کیا ہے

،آئی ایم ایف سے جلد قسط ملنے کی اُمید اور دوست ممالک کی جانب سے مزید تعاون کی یقین دھانی کے بعد ملکی معیشت پر مثبت اثرات سامنے آنے لگے ہیں ،مگر قرضوں کے زور پر پیدا ہونے والا معاشی استحکام محض وقتی سہارا ہے ،ملک میں معاشی استحکام کیلئے قرض کے سہارے کے بجائے معشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کر نا ہو گا۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت قرض کا حصول معاشی حرکت کیلئے عمل انگیز کاکام کرسکتا ہے ،مگر ہمارا ماضی قرض کے غیر پیداواری اخراجات سے بھرا پڑا ہے ،ہمارے لیے مالیاتی اداروں کے قرض اور دوست ممالک کی امداد معاشی ٹیک آف کا سبب نہیں بن سکی ہے ،ہمیں معاشی اُٹھان کیلئے ماضی کی ناقص روایت کو ترک کرنا اتہائی ضروری ہو گیا ہے ،یہ جتنا جلد کرلیں گے ،اتنا ہی اچھا ہو گا ،

بصورت دیگر معاشی بحران سے کبھی نجات حاصل نہیں کر پائیں گے،ہمارے حکمران زبانی کلامی تو بہت کہتے رہتے ہیں کہ معاشی غلامی سے نجات ہی سے دنیا میں حقیقی آزادی کا احساس ہوتا ہے ،مگر ایک طرف زبانی دعوئے کرنا اور دوسری جانب کشکول بڑھادینا ،ملکی وقار کے منافی ہے۔
اتحادی حکومت کے قو ل وفعل کا تذاد عوام کے سامنے ہے ،حکومت ایک طرف کشکوک توڑنے کی باتیں کرتی ہے تو دوسری جانب کشکول تھامے

آٓٓئی ایم ایف سے قرض مانگ رہی ہے ،جبکہ قرض پر انحصار کبھی معیشت کو پائوں پر کھڑا کرنے کی ضمانت فرہم نہیں کرسکتا ہے ،ہمارے ماہرین معاشیات بار ہابتا چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہمیں اپنی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں مزید کم کرنے کے ساتھ پٹرول، بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرنا پڑ ے گا،اس سے جہاں عام آدمی پر بے انتہا بو جھ پڑے گا ،وہیں ہماری ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہو،گی

کیونکہ ہمارا تاجر اس کا متحمل نہیں ہو سکتاہے ۔
اتحادی حکومت کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی ،حصول قرض کی بجائے قرض سے نجات حاصل کرنا ہو گی ،ہم غیر ملکی سودی قرضوں کی دلدل سے تب ہی خود کو نکال سکتے ہیں کہ جب اپنے وسائل بروئے کارلانے کے ساتھ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لائیں،یہ بدعنوان سیاسی مافیا ہی ملکی معاشی بحران کا اصل ذمہ دار ہے، جو کہ برسوں سے ملک کو نوچ رہا ہے، اگرواقعی کشکول توڑنا ہے تو قومی چوروں سے پائی پائی وصول کرنی ہوگی،

ہمیں ایک بار کڑا احتساب کرنا ہو گا، اگر ہم کڑا احتساب کرنے میں ناکام رہے تو مزید قرضے لے کر بھی حالات سدھار نہیں پائیں گے، ہمیں اپنے نظام کی اصلاح کرنی ہوگی، ہمیں دوسروں کی مدد لینے کی بجائے اپنی مدد آپ کرناہوگی۔
پا کستان کو قدرت نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے ،یہ ملک وسائل سے مالہ مال ہے ،لیکن اس ملک کی قیادت کی نااہلی ہے کہ ان وسائل کا درست استعمال نہیں کیا جارہا ہے ،ہمارے معدنی و افرادی وسائل کے ساتھ جغرافیائی اہمیت اور دنیا کی پانچویں بڑی آبادی ،جس کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے ،یہ سارے ایسے امکانات ہیں کہ جو پا کستان کو اُبھرتی ہوئی معیشت بنانے کیلئے بیتاب ہیں ،صرف ان وسائل صحیح طور پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے،حکومت وسائل کی آگاہی کے ساتھ استعمال کرنے کے دعوئے تو بہت کرتی ہے ،مگر اپنے تماتر دعوئوں کو عملی جامع پنانے کیلئے تیار نہیں ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان امیر عوام کا غریب ملک بن کررہ گیاہے، اس کی بڑی وجہ ملک میں معاشی عدم مساوات ہے ،ہمارے ہاں انفرادی حیثیت میں لوگ امیر سے امیر تر اور غریب لوگ غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں،یہاں پر دولت کی تقسیم اور گردش انتہائی غیر منصفانہ ہے ،یہ کیسا غریب ملک ہے کہ جہاں ہر سال ایک طرف پرتعیش کاریں امپورٹ ہو رہی ہیں، جبکہ دوسری جانب غریب بھوک سے خودکشی کر نے پر مجبور ہے ،ہر دور حکومت میں دعوئے اور وعدے بہت کیے جاتے ہیں

کہ مساوی یانہ نظام لایا جائے گا ،مگر ہر بار سارے دعوئے اور وعدے دھرے کے دھرے ہی رہ جاتے ہیں ،کیو نکہ حکمرانوں کی ترجیح نظام کی تبدیلی کی بجائے حصول مفادات ہے ،اس ملک میں جب تک دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام واضح نہیں کیا جائے گا ،اس وقت تک ملکی معیشت مستحکم ہو گی نہ عوام کی زندگی میں خوشحالی لائی جاسکے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں