سیاست کو اکھاڑا مت بنایئے
ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی طوفان میں اضافہ ہو رہا ہے،حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ٖضائع نہیں کررہے ہیں ،ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ہیں اور گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں ، اس اکھاڑ پچھاڑ کی سیاست سے ملکی وعوامی مسائل میںکمی کے بجائے بے پناہ اضافہ ہی ہورہا ہے،لیکن ہماری سیاسی قیادتیں قطعی طور پر سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے
کہ اس سیاسی افراتفری اور بے یقینی کے ملکی معاملات پر کتنے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں،وہ ایک دوسرے کو گرانے اوردیوار سے لگانے میں بھو ل چکے ہیں کہ اس وقت ملک وعوام کن بحرانوں سے گزررہے ہیں۔
یہ کیسی سیاست اور کون سی ملک و قوم کی خدمت ہے کہ ملک کو مسائل کی آگ میں جھونک کر اپنے اقتدار کے لیے رسہ کشی کی جائے، یہ رسہ کشی کی سیاست ماضی کا بھی حصہ رہی ہے کہ جب مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف بڑی شدت کے ساتھ صف آرا تھے اور ملک میں آئے دن حکومت کی تبدیلی سے جمہوریت کو خطرات لاحق رہتے تھے تو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر نے میثاق جمہوریت کے ذریعے ملک میں جمہوریت کے استحکام کی کوششوں کا آغاز کیا،
اس میثاق جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے دونوں نے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کا مکمل ساتھ دیتے رہے ہیں ،اس کے بر عکس عمران خان مسلم لیگ( ن) حکومت کے خلاف ابتداء سے ہی بھرپور مخالفت کرتے رہے ہیں،اس کا بدلہ مسلم لیگ( ن)نے دیگر اتحادیوں سے مل کر تحریک انصاف حکومت گراکر لیا
،تاہم تحریک انصاف قیادت حکومت سے باہر آنے کے بعد سے عوام میں زیادہ مقبول ہوگئی ہے ،تحریک انصاف قیادت کا ہر بیانیہ عوام میں مقبولیت کی انتہا کو چھورہا ہے ،حکومت گھبرائی ہوئی ہے اور گھبراہٹ میں انتہائی غلط فیصلے کرتی جارہی ہے ،اس میں شہباز گل سے لے کر عمران خان کے خلاف مقدمات بنانے تک کاتحریک انصاف سے زیادہ حکومت کا نقصان ہو رہا ہے ۔اتحادی حکومت سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف قیادت کو دبا کر دیوار سے لگا ئے گی ،یہ حکومت کی انتہائی غلط فہمی ہے کہ مخالفین کے خلاف مقدمات قائم کرنے سے دبایا جاسکے گا ،ملکی سیاست کی تاریخ گواہ ہے
کہ ہر دور میں ایک دوسرے کو دیوارسے لگانے اور گرانے کی تماتر کائوشیں ناکام ہوئیں اور اس بار بھی ناکام ہوں گی ، حکمران قیادت کو جہاں اپنی روش بدلنا ہو گی ،وہیں اداروں کی بھی ذمے داری ہے کہ ملک کے سیاسی استحکام میں اپنا حصہ ڈالیں اور کسی بھی حکومت کے قیام کے بعداس کا دورانیہ مکمل کرنے میں اپنا فعال کردار ادا کریں، اگر سیاست دان عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا کر ایک دوسرے کے خلاف کمر کستے رہیں گے اور یہ امید باندھیںگے کہ اداروںکے سہارے اپنی مخالف حکومت کو گھر بھیجیں گے
تو عدالتوں کی بھی ذمے داری ہے کہ آئینی اور قانونی نکات کا سہارا لیے بغیر سیاسی قیادت کو ملکی حالات اور واقعات کے مطابق رہنمائی فراہم کرے اور اس بات کا احساس دلائے کہ حکومت سازی کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ کسی کی منشاء پر فعال اور کسی دوسرے کی مرضی پر گھر بھیج دی جائے، اس کے اثرات سیاسی قیادت سے زیادہ عوام پر پڑتے ہیں اور عوام ہی بھگت رہے ہیں۔
ہماری سیاسی قیادت کی تر جیح کبھی عوام نہیں رہے ،اس لیے ہی سیاست کو اکھاڑا بنا رکھا ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جارہی ہیں اور ایک دوسرے کوہی سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار ٹہرایا جارہا ہے ،
لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ہر وقت مظاہروں ، احتجاج، عدالتوں، اداروں کے خلاف بیان بازی، جرائم پر قابو نہ پانا اور میرٹ کو پامال کرنا، بدعنوانی کو عام کرنا، بددیانت افراد کے لیے ترقی کے راستے کھولنے کا ذمہ دار کوئی اور تو نہیں ہے، ہمارے سیاستدان اقتدار میں واپسی کے لیے اور اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ہر جائز وناجائز کام کرتے ہیں،ہمارے ہاں عدم استحکام کی بنیادی وجہ پاور گیم ہے اور اس کے حصول میںکوئی بھی ایک دوسرے کو موقع نہیں دینا چاہتا ہے ،مسلم لیگ( ن
)کی حکومت میں عمران خان کا دھرنا رہا تو عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن جماعتیں احتجاج کی سیاست میں مصروف رہیں،اوراب اتحادی حکومت ہے تو عمران خان ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں ، یہ سارے معاملات اُکھاڑ بچھاڑ سے حل نہیں ہوں گے،فریقین کو آج نہیں تو کل بل بیٹھنا ہی پڑے گا ،اس وقت حالات محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں ،اگر حکومت اکھاڑ بچھاڑ کی راہ پر ہی گامزن رہی توکچھ بھی ہو سکتا ہے ،کیونکہ اِس وقت عوام شدید مشتعل حکومت کا تختہ اُلٹ بھی سکتے ہیں۔