مرے کو مزید نہ مارا جائے !
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت باقاعدہ تہیہ کر چکی ہے کہ آئی ایم ایف جو کچھ بھی کہے کرتے چلے جانا ہے اورعوام کو ریلیف دینے والا کوئی کام نہیں کرنا ہے، اس لیے ہی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اس ایک سال میں کچھ ہوسکتا ہے نہ عوام کو کچھ دیا جاسکتا ہے ،
ہر آنے والے دن میںعوام کو رلیف دینے کی بجائے کبھی نئے ٹیکس کا بو جھ لادا جارہا ہے تو کبھی پیٹرول ،بجلی ،گیس مہنگی کی جارہی ہیں، حکومت نے ایک بار پھر بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا ہے، یہ اضافہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر ہی کیا گیا ہے،ایک طرف ملک میں بڑھتی مہنگائی ہے تو دوسری جانب حکومت کے عوام مخالف فیصلے مرے عوام کو مزید مارنے کا باعث بنے لگے ہیں ۔
اس میں شک نہیں
کہ اتحادی حکومت عوام کو رلیف دینے کے وعدئوں اور دعوئوں کے ساتھ آئی تھی ،مگر چند ماہ میں ہی آئے روز کی بڑھتی مہنگائی نے حکومتی سارے دعوئوں کے پول کھول دیئے ہیں ،تاہم حکومت اپنے عوام مخالف فیصلوںپر نظر ثانی کر نے کی بجائیمزید عوام پر بوجھ ڈالے جارہی ہے،نیپرا نے ہوشربا مہنگائی اور کم و بیش 9مدوں پر مشتمل بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے پریشان حال تنخواہ و اجرت دار صارفین کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے
اپریل تا جون 2022ء کی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی 3.39روپے فی یونٹ مزیدمہنگی کرنے کی منظوری دی ہے ،اس کا اطلاق اکتوبر تا دسمبر تین ماہ کے بلوں پر ہوگا، بجلی 4.34روپے مہنگا کرنے کی ایسی ہی منظوری ماہ جولائی کے لئے دی گئی تھی ،یہ اضافہ کل ملاکر 8.77روپے بنتا ہے کہ جو جون میںبڑھائی گئی قیمت 7.91روپے فی یونٹ کے علاوہ ہے، حکومت بجلی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافہ کرتی جارہی ہے
اور عوام بے بسی سے ماسوائے احتجاج کے کچھ کر نہیں پارہی ہے۔حکومت نے یک بعد دیگرے بجلی بم گرا کر عوام کی کمر توڑ کر ہی رکھ دی ہے ،ہر خاص و عام شخص پریشان ہوکر رہ گیا ہے کہ بجلی کے بل جمع کروائے یا اپنے بچوں کو دووقت کی روٹی کھلائے، اس بار بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی بھی بھرمار ہے،کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ کس کس قسم کے ٹیکس ڈالے گئے ہیں،
ایک عام غریب کیلئے تو بجلی کا استعمال ہی ناممکن بنایا جارہا ہے ،جبکہ واپڈا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین، وزرائ، سرکاری افسرا ن بجلی مفت استعمال کرنے کے ساتھ بجلی کی چوری الگ کرورہے ہیں، بجلی تقسیم کرنیوالی کمپنیوں کے ملازمین بدعنوانیوں میں ملوث ہیںاورکوئی پکڑنے والا اور روکنے والا نہیں ہے ،ملک میں بدعنوان دونوں ہاتھوں سے ناجائز کمارہا ہے اوربجلی کے بل غریب دینے پر مجبور ہے ،اس ملک میں غریب کا کوئی پر سان حال نہیں ،غریب پر بوجھ در بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے اور حکومت کے پاس غریب کے مسائل کے تدارک کا کو ئی پلان نہ کوئی پروگرام ہے۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ہر دور اقتدار میں عوامی مسائل کے تدارکیلئے ڈنگ ٹپائو پروگرام بنائے جاتے ہیں ،اس ملک کے عوام کل بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شکار تھے اور آج بھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کے ساتھ بجلی کا اضافی بوجھ بھی برداشت کررہے ہیں ،حکومت عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے اورلوڈشیڈ نگ کے عذاب سے نجات دلانے کے بجائے فیلو ایڈجسٹمنٹ کے نام پر آئی ایم ایف کی رضا کیلئے بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کئے جارہی ہے ،موجودہ حکمرانوں نے ہی اپنے ادوار میں مہنگے اندھن سے چلنے والے مہنگے پاور پلانٹ لگائے اور اب اپنی نااہلیوں کا سارا بوجھ خود اُٹھانے کی بجائے عوام پر ڈال رہے ہیں،عوام نے پہلے مہنگے پاور پلانٹ کا بوجھ برداشت کیا اور اب مہنگے اندھن کے نام پر آئی ایم
ایف کے سارے قرضوں کا بوجھ بھی عوام ہی نے برداشت کرنا ہے۔ہمارے حکمرانوں نے ملک و عوام کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے بجائے آئی ایم ایف کے قرضے کے ایسے شیطانی چکر میں پھنسا دیا ہے کہ جس سے نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیے رہی ہے،حکومت آئی ایم ایف سے قرض ملنے پر ایسے خوشیاں منارہی ہے کہ جیسے کسی شرائط کے بغیر مل گیا ہے،آئی ایم ایف نے قرض کی نئی قسط کے ساتھ نئی شرائط بھی لگائی ہیں، اس پر من و عن عمل کرتے ہوئے ہی حکومت عوام پر مزید بوجھ ڈالے جارہی ہے
،آئی ایم ایف کی مذکورپورٹ میں بھی انہیں احکامات کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اگراس پریشان کن صورتحال میں سیاسی قیادت متحد ہو کر ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنے کے لیے کوئی قابلِ عمل پالیسی تشکیل نہیں دیتی تو آنے والے وقت میں عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا ،مرے عوام کو مزید مارنے سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے،
اگر ہماری سیاسی قیادت ملک اور قوم کے ساتھ ذرا سی بھی مخلص ہے تو اسے مروجہ مشکلات سے نجات حاصل کر نے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کوساتھ بٹھا کر مشاورت کرنی چاہیے ، یہ کام جس قدر جلد کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے،بصورت دیگر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا توان کے ہاتھ سے حکمرانوں کے گریباں چھوڑانے کوئی نہیںآئے گا۔