خراب کھیل سے ایشا کپ ہارے !
پاکستانی کرکٹ ٹیم سری لنکا کے خلاف ایشیا کپ کے فائنل میں ہارگئی اور اس پر میدان کے باہر اور گھروں میں بیٹھے لوگوں نے طوفان اُٹھا رکھا ہے کہ ہماری ٹیم نالائق اورکپتان نااہل ہے، حالانکہ اس ٹیم نے ہی چند روز قبل بھارت اور افغانستان کو شکست دی تھی، کرکٹ یا کسی بھی کھیل میں ہار جیت کھیل ہی کا حصہ ہوتی ہے،پاکستانی کرکٹ ٹیم فائنل میںخراب کھیلی اور ہار گئی، اس سے قبل اچھا کھیلی توجیت گئی تھی
،یہ ٹیم جب جیتی تو کسی نے کسی پرانے کھلاڑی کے حوالے دیئے نہ کسی نے کپتان اوررمیز راجا کو اعزاز سے نوازا،لیکن جب سے ہارے ہیں تو ساری برائیاں ان میں نظر آنے لگی ہیں، یہ رویہ انتہائی غیر مناسب ہے ، اگر کرکٹ ٹیم تھوڑی سی بہتر پرفارمنس دیکر میچ جیت جاتی تو سب اپنی پلکوں پر بیٹھاتے ،لیکن ہارتے ہی رمیز راجہ کے خلاف پارلیمان میںقرارداد پیش کی جانے لگی ہے، حالانکہ انہیں عمران خان نے ہی نامزدکیا تھا،لیکن پنجاب حکومت اب اپنے ہی لیڈر کے مقرر کردہ شخص کو ہٹانا چاہتی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کرکٹ اتفاقات کا کھیل ہے اور ہار جیت ہر کھیل کا حصہ ہوتی ہے، اس لیے ایشیا کپ کے فائنل میں قومی ٹیم کے فتح حاصل نہ کرپانے پر اتنی زیادہ مایوسی کی بھی کوئی بات نہیں ہے ،اس حوالے سے کپتان اور نائب کپتان کا کہنا بالکل بجا ہے کہ کر کٹ کے کھلاڑی بھی انسان ہیں
اور انسانوں سے ہی غلطیاں ہو جاتی ہیں ،کھیلاڑیوں سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ان غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اپنی کار کردگی کو بہتر بنانا ہے ، خود احتسابی کے ذریعے ہی خامیوں کا تعین اور ان کے ازالے کی تدابیربھی کی جاسکتی ہیں،تاہم کھیل کو سیاست سے دور رکھنا چاہئے ،اگر کھیل پر بھی سیاست کی جائے گی تو کھیل میں بہتر آنے کی بجائے مزید تنزلی کے خدشات بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔
پا کستان کرکٹ بورڈ میں باصلا حیت لوگوں کی کمی نہیں ،لیکن ضرورت خود احتسابی اور تنقید برائے اصلاح برداشت کرنے کی ہے،ہمارے ہاں تنقید برائے اصلاح کو بھی منفی انداز میں لینے کا رواج عام ہو گیا ہے ،ایک اچھی ٹیم کا اچھی کار کردگی دیتے ہوئے اچانک فائنل میں خراب کار کر کردگی دینا سمجھ سے بالا تر ہے ،
ایشیا کپ فائنل میں پاکستان کے فاتح نہ بن پانے کا ایک واضح سبب کھیلاڑیوں کا غیر سنجیدہ رویہ بھی رہا ہے ، ایشیا کپ فائنل کو فائنل میچ سمجھ کر کھیلا ہی نہیں گیا ،ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پا کستانی ٹیم سری لنکا کے ساتھ کوئی پریکٹس میچ کھیلنے آئی ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ایشیا کپ میں پاکستان کی کارکردگی شروع سے ہی کچھ زیادہ متاثر کن نہیں رہی ہے، لیکن بھارت کے ساتھ دوسرے میچ میں پاکستان نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ناقدین کے منہ بند ضرور کر دیئے تھے،
اس کے بعد افغانستان کے میچ میں نسیم شاہ نے جیت کے لیے کردار ادا کیا،اس سے کافی پذیرائی ملی، لیکن سری لنکا کے ساتھ پہلے میچ اور پھر فائنل میں نہ جانے سارے کھلاڑی سستی کا شکار کیوں رہے،پا کستانی کھلاڑیوں نے بائولنگ ، فیلڈنگ اور بیٹنگ میں بے شمار غلطیاں کی ہیں،اگرسب میچز کو دیکھا جائے تو اس میں کئی کھلاڑی ایسے بھی ہیں کہ جوکسی ایک میچ میں بھی نہیں چل سکے، اس حوالے سے سلیکشن پر سوالیہ نشان ہے
کہ آخر کیا مجبوری ہے کہ پی سی بی ابھی تک کھلاڑیوں کا متبادل تلاش نہیں کر سکا، حالانکہ اس وقت ملک میں نہ صرف پی ایس ایل کے میچز مسلسل ہو رہے ہیں ،بلکہ اب تو کشمیر پریمیئر لیگ بھی ہو رہی ہے، لیکن پی سی بی نئے کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، جوکہ باعث افسوس ہے۔
پا کستان میں ٹیلنٹ اور اچھے کھلاڑیوں کی کمی نہیں ،البتہ دیکھنے والی نظریں کمزور ہوتی جارہی ہیں ، پاکستان کے پاس بہترین ٹیلنٹ موجود ہے،لیکن ہم مصلحتوں کا شکار ہو کر اپنا ٹیلنٹ استعمال کرنے کی بجائے ٖضائع کررہے ہیں،ہمارے ہاں زبانی کلامی میرٹ کی باتیں بہت کی جاتی ہیں ،مگر ہر شعبے میں میرٹ کا فقدان ہے ،اس کے باعث ہی ہر جگہ ترقی کی بجائے تنزلی دکھائی دیتی ہے،کرکٹ بورڈ میں بھی ذاتی پسند ناپسند کے
ساتھ میرٹ میں سفارش کی امیزش عام ہے ،اس کے باعث ٹیم کی کار کردگی میں فرق آتا ہے ، اگر کھیل کے تمام شعبوں میں بولنگ بیٹنگ اور فیلڈنگ میں معیار کو مزید بہتر بنانے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہے اورٹیم میں کھلاڑیوں کے انتخاب میں زیادہ سوجھ بوجھ کے ساتھ صرف کارکردگی کی بنیاد پر بروقت درست فیصلے کیے جائیں تواپنی درپیش کمزوریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے، سری لنکا ان حوالوں سے ایک قابل تقلید مثال ہے کہ جو کرکٹ کے میدان میں پاکستان ،بھارت سمیت دیگر ممالک سے کہیں زیادہ جونیئر ہونے کے باوجود ایشاکپ جیتے ہوئے ان سے بہت آگے نکل گیا ہے۔