بی جے پی کے جنگل راج میں آیا آفریقی چیتا پریشان
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
آفریقہ کے جنگلوں میں جانور کے ساتھ انسانوں پر پھر بھی کوئی نیم قانون لاگو نہیں یہ تو عالم کو معلوم تھا لیکن عالم کی سب سے بڑی جمہوریت چمنستان بھارت میں، جہاں اسے اسکی محبوبہ کے ساتھ لایا گیا تھا تاکہ وہ اس ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر آساس ویدک ملک عظیم بھارت کی سرزمین پر اپنی آل آولاد کو دوبارہ آباد کرسکے۔ اس ملک چمنستان بھارت کے بارے میں جو اس نے سن رکھا تھا
یہاں آنے پر اسے یہ ملک، یہاں کا قانون، ہر چیز الگ ہی لگی۔ جس ملک میں بغیر فرق مذہب، انسانیت کا احترام رکھنا ہزاروں سال سے دھرم قانون تھا آج اسی گنگا جمنی ملک چمنستان بھارت میں، دلت و آدیواسی پچھڑی جاتی اور وقت کی مہذب ترین مسلم آبادی کو بھی یہ آج کے ھند پر قابض حکومت کرنے والے خود ساختہ ھندو احیاء پرست سنگھی حکمران،اپنے برابر درجے کا انسان ہی نہیں سمجھتے ہیں۔
ان پر ظلم روا رکھنا، انہیں اپنا غلام سمجھنا انکی جوان و خوبصورت بہو بیٹیوں کو، اپنے لئے بھگوان ایشور کا من و سلوی سمجھ اس پر چھپٹ پڑنا ان کی عزتوں کو تار تار کرنا اور انہیں اپنی ہوس پورا کرنے کے بعد،جان سے مار دینا، گویا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ملکی ریسورسز جس پر ہر شہری کا حق ہوتاہے اسے یہ صرف چند اونچی ذاتی برہمن پونجی پتیوں کا حق ہی تسلیم کرتے ہیں اسی لئے شاید ابھی انکے 8 سالہ زمام حکومت میں 130 کروڑ عام جنتا کو ملکی ریسورسز سے مستفید و محظوظ کروانے کے بجائے،
انہیں اس سے ماورا و محروم کرتے ہوئے،اسے نہ صرف اپنے خاص دو گجراتی برہمن پونجی پتی ایڈانی امبانی کو عالم کا سب سے بڑا پونجی پتی جو بنایا ہے اسکے چرچے افریقی جنگلوں تک جو پہنچ گئے تھے اس میں کیا حقیقت ہے یہ اب بھارت آنے پر اسے یہ بات معلوم ہوئی ہے۔ انسانیت پر ایسا ظلم انہوں نے اپنے وقت کے بدنام زمانہ غیر مہذب افریقی جنگلوں میں آباد انسانوں میں بھی نہیں دیکھا تھا۔
رہی بات مالک ارض و سماوات کے،انہیں جنگلوں پر بادشاہت کرنے بحیثیت چیتا یا شیر ببر انہیں پیدا کئے جانے کے باوجود اور انکے، اس جدت پسند مہذب دنیا کے اقدار لاعلمی باوجود، انہوں نے کبھی اپنے حکمرانی والے جنگلوں میں، اس آزاد بھارت میں ان سنگھی حکمرانوں کے زمام حکومت میں مچی یا دانستہ مچائی گئی مسلم دلت انسانیت پر روا رکھی ظلم و بربریت کو اپنے جنگلی راج میں بھی روا نہیں رکھا ہے۔ قدرت کے انہیں عطا صلاحیت اپنے زندہ رہنے کےلئے کسی بھی مخلوق کو دبوج کھاجانے کی پوری صلاحیت و استطاعت و آزادی باوجود، ہم جانوروں نے تو کبھی،اپنی رعایا پر،بے جا ظلم و جبر نہیں کےے ہیں۔
ہمارے آس پاس کئی پرجائی کی مخلوق بے خوف آزاد گھومتی پائی جاتی پے کبھی ہم نے ان کمزور خرگوش و لومڑی بھیڑیے پر ہاتھ صاف نہیں کیا ہے جب بھی ہمیں بھوک لگتی ہے ہماری جسمانی ضرورت دو تین کلو تازہ گوشت کے حصول کے لئے اپنے آس پاس گھومتے کسی معصوم خرگوش بھیڑ بکری کے بچے کو دبوچ کھانے کے بجائے، ہمارے مقابلے والے،تیز تر دوڑتے،سب سے نڈر ہرن یا جنگلی بھینسے کا انتخاب کر، میلوں اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے،اسے دبوج کھانا ہم پسند کرتے ہیں
بلکہ اپنے علاوہ اپنے کھانے کے بعد کئی گیڈروں لومڑیوں، لکڑ بھگوں، کوؤں چیلوں گدھوں و لاکھوں چونٹیوں سمیت انیک اپنی پرجا مخلوق خدا کی بھوک مٹانے کا بندوبست ہم ہر روز دو روز بعد کئے جاتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو مہذب کہے جانے انسان ہمارے وصف تقسیم رزق کو کیا جانیں۔ یہ تو ہمیں پنجروں میں یا مخصوص تاردار جالیوں سے گھرے خطہ ارض پر، آزاد گھومنے چھوڑ دئیے، ہمیں وقت پر بھوک مٹانے کھانے کے لئے، ایک آدھ بکری کا بچہ ہمارے سامنے چھوڑ،ہمیں مجبورا اپنی بھوک مٹانے،
اس ننھے بکری کے بچہ کو کھانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ لیکن ہم نے تو کبھی اپنے زندگی میں، اپنے جنگلوں میں آزاد رہتے، کبھی ایسے معصوم بکری بھیڑ کے بچوں کو یا ہمارے سامنے گھومنے والے خرگوشوں کو مار کھاتا اپنی اوقات کے خلاف ہی تصور کیا ہے۔ ہم جب بھی اپنے کھانے کے لئے، شکار کا سوچتے ہی،تو ہمارے سامنے ہزاروں دیگر اپنی رعایا گیڈر لکڑبھگے لومڑیاں، کوئے چیل گدھ اور چیونٹیوں جیسے انیک ہزاروں مخلوق ہوتی ہیں جو ہمارے شکار کئے جانور سے ہمارے بعد مستفیض ہوتی پائی جاتی ہیں۔
ہم ان برہمن پونجی پتی شیطانی ایڈانی امبانی جیسے نہیں ہوسکتے جو صرف عالمی سطح عالم کے بڑے پونجی پتی کے رتبہ کے حصول کے لئے، اپنے ماتحین لاکھوں انسانوں کے منھ سے لقمہ چھین چھین،انہیں بے آسرا مرنے کے لئے چھوڑ،خود عالم کے بڑے پونجی پتی کہلوائیں۔ ان مہذب انسانوں میں ہماری تصویر مسخ کر پیش کرتے ہوئے ہمیں درندہ جنگلی جانوروں پر ظلم روا رکھنے والا جو مشہور کیا گیا ہے
ہماری شخصیت بالکل اس کے پرے ہے۔ ہم اپنی رعایا میں ہزاروں پرجاتیوں کے لئے کھانے کا بندوبست،ہر اپنے کھانے ساتھ کئے جانے کا ہمیشہ خیال رکھنے والے رحمدل جنگل کے حکمران ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو جنگل کے ہزاروں اقسام کے جانور ہمیں دل سے اپنا حکمران تصور کرتے ہیں
کچھ سال پہلے ہماری ہی ذات برادری کے سفید چیتے نےدہلی کے جانوروں کے ذو میں، اوپر سے گرنے والے ایک انسان آصف کو اسکے اپنی پرجاتی انسانوں کے پھتر مار اسکے ہلاک ہونے سے بچانے لئے، اسے ان انسانوں سے بچانے کوشش میں اپنے عادت مطابق اسے گردن سے پکڑ کر حفاظتی محفوظ جگہ لے جاتے ہوئے، اسے بچانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بیچارہ انسان ڈر کے مارے خود سے مرکر ہم جانوروں کو بدنام کرگیا تھا۔ یہ اور بات ہے،بعد میں آنسانون میں سے ڈاکٹروں نے،
اس انسان کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے، اس انسان کے جسم پر سوائے اس کی گردن پر ہمارے دو دانت کے ایک چھوٹی سی خراش تک نہ پاتے ہوئے، ہمارے حصار میں آئے انسان کو، ہمارے مارنے کے بجائے اسے بچانے کی ہماری کوشش کا اعتراف کیا تھا۔ اس وقت جب وہ انسان ہم چیتوں کے بیچ گرا تھا تو اس کے ساتھی انسان، اسے ہم چیتوں سے بچانے پھتر مار ریے تھے لیکن ہم جانور اپنی لاعلمی کے باعث اسے پھتر مار رہے ہیں تصور کرتے ہوئے، اسے بچانے، اپنی عادت مطابق، اسے اپنے بچے کے طرح اسے گردن سے پکڑ محفوظ جگہ لے گئے تھے۔
اس پر اکتوبر 2014 میں ہی ہمارا لکھا مضمون “سفید شیر قاتل تھا یا (آصف کی جان بچانے کی کوشش کرتا)مسیحا” ان ایام کافی پسند کیا گیا تھا
فارینسک رپورٹ مطابق سفید شیر آصف کو مارنا نہیں بچانا چاہتا تھا
انسانوں کے تئیں ہماری اتنی رحم دلی باوجود، یہ اپنے آپ کو مہذب کہنے والے انسان، ہمیں درندہ اور درندہ صفت کہتے نہیں تھگتے۔ لیکن یہ مہذب انسان اپنے ذات برادری والے انسانوں پر کئے جانے والی درندگیوں کو بھول جاتے ہیں۔ کیا آس ہزاروں سالہ گنگا جمنی ویدک تہذیبی ملک چمنستان بھارت میں ،ان 8 سالہ ھندو احیا پرستی والے زمام حکومت دور اقتدار میں، انہی مذہبی ٹھیکیداروں کےاشاروں پر، جنونی بھیڑ مجمع کے ہاتھوں سو کے قریب دلت مسلمانوں کو لنچنگ، بے بسی بے کسی والی موت مرتے نہیں دیکھا ہے؟
کسی بھی غلط فہمی کے چلتے،ہجومی موت مارا جانا، ایک الک جرم ہے لیکن ہجومی تشدد کا نشانہ بنا،بے قصور مارنے والے ظالموں کو، نہ صرف بچانا بلکہ انکی عزت و توقیریت کرنا، انہیں عہدوں سے نواز انکا اکرام کرنے والی نیچ سنگھی ذہنیت تو، ہم افریقی جانوروں میں بھی تو نہیں پائی جاتی یے با؟ کیا اس بات کا ادراک آج کی، اپنے آپ کو مہذب قوم سمجھنے والی انسانیت کو یے؟ یہ ایک اہم سوال ہم جانور طبقہ آج کے مذہب انسانوں سے پوچھنا چاہتا ہے؟ بی جے پی کے جنگل راج میں مہان مودی جی کے 72 ویں جنم دن پر چمنستان بھارت لایا گیا،
آفریقی چیتا پریشان اس لحاظ سے ہے کہ آیا وہ افریقی جنگل، اس آزاد جمہوریت کی آڑ میں سنگھی بربریت روا رکھے راج سے اچھا یے؟ یا عالم کی سب سے بڑی آزاد سیکیولر ریاست ہزاروں سالہ گنگا جمنی چمنستان بھارت میں، سیکیولزم و مذہبی احیاپرستی کی آڑ میں برہمنی انسان کے ہاتھوں دلت آدیواسی پچھڑی جاتی ھندو برادری کے ساتھ ہی ساتھ، پانچویں حصہ کی آبادی ہم مسلم قوم کے ساتھ بھی جانوروں جیسا سلوک کئے جانے والا ، ھندو احیاء پرستی والا ننگا ناچ، افریقی لاقانونیت والے جنگل راج سے بھی کیا بہتر ہے؟
اپنے دور حکمرانی میں، اپنی سرپرستی میں، گودھرا کانٹ ناٹک دہرائے، اور اسکا الزام گجراتی مسلمانوں پر ڈالتے ہوئے، سرکاری سرپرستی میں ڈھائےجانے والے نرسنگہار سے،ہندو احیا پرستی والے سنگھی رام راجیہ کی شروعات کرنے والے، تباہ کن دور پر، بیس سال کا طویل و تابناک عرضہ اختتام پزیر ہونے پر، اپنی درندگی کی خاموش داستان رقمطراز کرنے تو، افریقہ کے جنگلوں سے مشہور درندہ چیتے کو تو بھارت نہیں لایا گیا ہے؟ وما علینا الا البلاغ
دہلی ذو میں چیتے کے سامبے میں گرے آصف کی موت
آصف کی موت کی داستان