ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 38

یہ رسہ کشی کب تک چلے گی !

یہ رسہ کشی کب تک چلے گی !

حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مابین عام انتخابات کے انعقاد پرمسلسل کھینچا تانی جاری ہے، حزبِ اختلاف کی خواہش ہے کہ جلد از جلد انتخابات کا اعلان کر کے حکمران اتحاد اقتدار نگران حکومت کے سپرد کردے ،جبکہ حزبِ اقتدار یکسر مختلف سوچ کی حامل ہے، اس کی طرف سے بار بار یہی کہا جارہا ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی ،اس حوالے سے ایک بار پھروزیر اعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے درمیان ملاقات میں طے پایا ہے کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے

اور قبل از وقت انتخابات کے لئے کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کیا جائے گا۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جاری رسہ کشی کب تک ایسے ہی چلے گی اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا، اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے،تاہم اس بڑھتی سیاسی محاذ آرائی میں بھاری قدموں کی باز گشت صاف سنائی دینے لگی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ملک میں یک بعد دیگرے بحرانوں سے نکلنے کا واحد حل انتخابات ہیں ،لیکن اتحادی حکومت انتخابات سے گریزاں ہے ،کیو نکہ اتحادی قیادت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابات میں ان کی ہار یقینی ہے ،اس لیے انتخابات کی بجائے اپنے مقدمات کے خا تمے پر توجہ دیے رہے ہیں،

اس حوالے سے حکومتی اتحاد نے عدالتوں سے انصاف کا انتظار کرنے کی بجائے، وہ قانون ہی بدل دیا ہے کہ جو ان کی سرگرمیوں کو مجرمانہ ثابت کرتا تھا،اتحادی قیادت ایک طرف خود کو مقدمات سے بچانے میںکامیاب ہو گئے ہیں تو دوسری جانب قبل از وقت انتخابات کے انعقاد میں معاشی بحران سے لے کر سیلابی بحران تک کی آڑ لی جارہی ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پی ڈی ایم نے تحریک انصاف حکومت گرانے کی صورت میں اپنا جو ایجنڈہ عوام کے سامنے رکھا تھا، اس کے کسی ایک نکتہ پر بھی اب تک عمل نہیں ہو سکا ہے،تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں اپریل کی نسبت کم ہیں ،لیکن نرخ لگ بھگ سترفیصد بڑھ چکے ہیں،

بجلی اور گیس کے بلوں میں بے تحاشہ اضافے نے لوگوں کی کمر توڑ کررکھ دی ہے،ملک بھر میں اشیائے ضروریہ وافر ہونے کے باوجود مارکیٹ میں ان کی مصنوعی قلت پیدا کر دی گئی ہے،سرکاری دفاتر اور محکموں کی کارکردگی میں بھی کوئی بہتری نہیں لائی جاسکی ہے،تاہم وزیر اعظم ہر اتحادی کو خوش کرنے کے لئے بڑی تعداد میں مشیر اور وزیر بنائے جارہے ہیں،وزیر اعظم کی نوازنے کی پالیسی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے

کہ متعدد وزیر و مشیر ابھی تک بے محکمہ کام کر رہے ہیں،لیکن ان کے اخراجات قومی خزانے سے پورے کئے جا رہے ہیں ۔حکومتی اتحادکی ساکھ اندرون اور بیرون ملک یکساں طور پر انتہائی خراب نظر آنے لگی ہے،ایک طرف اتحادی حکومت اپنی تجرابہ کاری کے باوجود ملک وعوام کیلئے کچھ نہیں کر پائی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ نے ساری رہی سہی کسر پوری کردی ہے ،

حکومتی اتحاد کی دم توڑتی ساکھ کی وجہ سے کوئی دوست ملک بھی پاکستان کو امداد یا قرض فراہم کرنے کیلئے آمادہ نظر نہیںآرہا ہے ،اس کاوزیر اعظم شہباز شریف خود بھی متعدد بار اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ جب کسی ملک سے رابطہ کرتے ہیں تو اس ملک کی قیادت پہلے ہی سے شک کا اظہار کرنے لگتی ہے کہ ہم سے کہیں قرض تو نہیں مانگنے لگے ہیں۔یہ امر انتہائی باعث شرم ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت ایک بھکاری کے طور پر اُبھر رہی ہے،یہ سب کچھ صرف پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں نہیں ہوا

،بلکہ پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی جماعتوں نے عشروں سے جو اقتدار کی باریاں لگا رکھی تھیں ،یہ ان کی ساری کارگزاریوں کا ہی نتیجہ ہے کہ جسے ساری قوم بھگت رہی ہے،ملک معاشی بحران سے نکل نہیں پایا تھا کہ سیلاب نے ایک تہائی حصہ ڈبودیاہے،دو ہزار کے قریب لوگ مارے جاچکے ہیں،ساڑھے تین کروڑ افراد بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے پڑے ہیں،جبکہ حکومتی کارکردگی کا حال یہ ہے

کہ پہلے امدادی سامان کے ہزاروں خیمے اور مچھر دانیاں ایک فیکٹری سے ملیں، پھر متحدہ عرب امارات سے آنے والا امدادی سامان سندھ کے خفیہ گوداموں سے برآمدہو رہا ہے،اس صورت حال میں کون سا ملک حکومت اور اس کے انتظامی اقدامات پر بھروسہ کرے گا۔اس وقت ملک کے ہر کونے سے حکمران اتحاد کی مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں،ایک طرف برھتی مہنگائی اور بے روز گاری ہے تو دوسری جانب حکمران اتحاد کے دندناتے لٹیرے ہیں کہ جنہوں نے حکومت کی غیر مقبولیت اور عوام کے مسائل کو بڑھایا ہے

،اس رسہ کشی میںحکمران اتحاد اپنی آئینی مدت کیسے پوری کرے گی ،جبکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہی جارہا ہے ،سیاسی استحکام زبانی کلامی باتوں سے نہیں ،مل بیٹھ کر معاملات سلجھانے سے ہی آسکتا ہے ،لیکن حزب اقتدار اور اختلاف اعلانات کے باوجود مذاکرات پر آمادہ نظر نہیں آتے ہیں،یہ بگڑتی صو تحال جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک اور آمریت کیلئے ساز گار بنتی جارہی ہے

، اگر حکومتی اتحادی نے وقت کی نزاکت کا احساس نہ کیا اورہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی آواز پر انتخابات سے گریزاں رہے تو عوام کا ایک منہ زور ہجوم ہی انہیں ایوان اقتدار سے نکال باہر کرے گا اور پھر جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں