متاثرین سیلاب کی امداد کہاں ہے
اس وقت ملک میں ہونے والی سیلابی تباہی پر پوری قوم سوگوار ہے، مگر یہ وقت پوری قوم کے لیے لمحہ فکر ہے کہ برس ہا برس ان نالائق حکمرانوں کی کارکردگی یہ رہی ہے کہ یہ اپنی قوم کوکسی مصیبت کی گھڑی میں سر چھپانے کے لیے ایک عدد خیمہ، دو وقت کی روٹی تک مہیا نہیں کرسکتے ہیں،
یہ اپنی قوم کو سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا سکتے ہیںنہ سر چھپانے کے لیے اپنے محلات کے دروازے کھول سکتے ہیں،یہ جاتی امرا، بلاول ہائوس کے عام عوام کیلئے دروازے نہیں کھول سکتے تو یہ سنگ دل حکمران غریب عوام کے درد کو پھرکیسے محسوس کر سکتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اس ملک کے حکمرانوں نے کبھی عوام کا احساس کیا نہ عوام کا کبھی دکھ درد محسوس کیا ہے ،ملک کا ادھے سے زیادہ حصہ سیلابی پانی میں ڈوب چکا ہے ، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، لوگوں کے مویشی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں، وبائی امراض جنم لے رہے ہیں، سیلاب متاثرین بھوک و علاج سے محروم کھلے آسمان تلے اپنے بچوں کے ساتھ زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں، اس ملک کے عوام پر بیرون ملک بسنے والوں کو رحم آرہا ہے
،جبکہ سیاسی قیادت مصیبت کی گھڑی میں بھی اپنی سیاست چمکانے میں لگی ہے ،حکومتی اتحاد حکمرانی کے مزے اْٹھا رہا ہے ،جبکہ اپوزیشن الیکشن کا مطالبہ لیے عوام کو بیدار کرنے میں مصروف ہے ،اس پرستم ظریفی دیکھے کہ ملک و قوم سنگین بحران میں ہے اور اتحادی اپنے مقدمات معاف کرانے کا جشن منا رہے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا ہے کہ دنیا سیلاب زدگان کیلئے امدادی سامان بھیج رہی ہے،حکومت امداد متاثرین تک پہنچانے میں ناکام نظر آتی ہے ،اگر اندرون اور بیرونی امداد کو دیکھا جائے تو اب تک متاثرین کو ساری سہولیات مل جانی چاہئے ،لیکن سیلاب متاثرین آج بھی بے یارو مددگار ہیں، سیلاب زدگان کی بے بسی دیکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اپنے دیگر کام چھوڑ کر سیلاب زدگان کی مدد کیلئے کو دوڑ پڑے ہیں اور چین کا دورہ کرکے 500 ملین یوآن کی ہنگامی امداد حاصل کرلی ہے
،عمران خان بھی دس ارب سے زیادہ رقم جمع کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں،جبکہ غیر سرکاری این جی اوز ہر ہفتے اپنی تمام کارکردگی عوام کے سامنے لاتی رہتی ہیں، لیکن جو ملکی اور غیرملکی امداد آرہی ہے اور جتنے اعلانات ہو رہے ہیں، اس اعتبار سے متاثرین کی داد رسی ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
در اصل اتحادی حکومت نے سیلاب متاثرین کیلئے کوئی میکنیزم بنایا نہ ہی ترجیحات کا کوئی تعین کیا ہے، پورے ملک میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ دیگر حکام کے ساتھ دورے پر دورے کررہے ہیں، لیکن بے ہنگم طریقے سے صرف فوٹو سیشن کے بعد واپس چلے جاتے ہیں، ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان سیلاب زگان کی بحالی کی بجائے سیلاب فنڈ پر جھگڑے چل رہے ہیں،
ایک طرف غریب سیلاب کی تباہ کایوں میں بے یارومدد گار مرر ہے ہیںتو دوسری جانب حکمران امدادی رقم کے حصول میں دست گریباں ہیں ،یہ سب دیکھتے ہوئے ہی متعدد بیرون ممالک کے سر برہان خدشات کا اظہار کرنے لگے ہیں،انہوں نے بہت واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہنا شروع کردیا ہے کہ جو امداد دی جارہی ہے، وہ متاثرین سیلاب تک ضرور پہنچنی چاہیے،لیکن دیکھاجائے تو تمام خدشات کے باوجود امدادی سامان متاثرین سیلاب تک نہیں پہنچ پارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر سے ا یک بڑی مقدار میں امداد ملنے کے باوجود متاثرین سیلاب امداد کو ترس رہے ہیں، جہاں نجی رضاکار تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت پہنچ رہی ہیں، وہیں پر کام ٹھیک ہو رہا ہے ،جبکہ سرکار پر ہرجانب سے شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے،حکومتی ادارے ہلاکتوں کی تعداد اور نقصانات کی اطلاع تو مسلسل دے رہے ہیں،
لیکن ملنے والی امداد کے متعلق کچھ بتا رہے ہیں نہ بیرون ملک سے آنے والا سامان متاثرین تک پہنچارہے ہیں، یہ امدادی سامان کہاں جارہا ہے ،بقول سندھ ہائی کورٹ سکھربینچ کے سامان افسروں کے گھروں میں رکھ دیا گیا ہے،پاکستانی عوام نے ایسا ہی منظر پہلے زلزلے کے بعد دیکھا اور اب سیلابی بحران پروہی منظر نامہ دہرایا جارہا ہے ،اس پرپاکستانی ادارے خود بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان امدادی رقوم کے بارے میں اپنا اعتبار کھو رہا ہے۔
اس وقت ضررت اس امر کی ہے کہ پا کستان اپناکھویا اعتباربحال کرے،اس کیلئے حکومت ایک ایسا سسٹم بنائے کہ جس پر دنیا اعتبار کرے، حکومت ایک طرف ایک ایسی ویب سائیٹ یا ڈیٹا بیس ترتیب دے کہ جیسے دنیا کے ساتھ شیئر کیا جاسکے کہ 3کروڑ متاثرہ افراد میں سے کتنے لوگوں کی بحالی ہو چکی اور کتنے رہ گئے ہیں
،دوسری جانب ان علاقوں میں بڑے بڑے ریلیف کیمپ بناکر میرٹ پر آفسران تعینات کیے جائیں،تاکہ حقیقی متاثرین افراد کی رجسٹر یشن کے ساتھ امداد صحیح انداز میں صحیح لوگوں تک پہنچائی جاسکے ،بصورت دیگر سیلاب زندگان کی امداد ہو سکے گی نہ پا کستان کو بدنامی سے بچایا جاسکے گا