ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 64

ہوتا ہے شب روز تماشا مرے آگے !

ہوتا ہے شب روز تماشا مرے آگے ! 

ملک بھر میں یک بعد دیگرے ایک نئی آڈیو سننے کو مل رہی ہے، اس آڈیو لیکس نے جہاں بڑے بڑے ہائوسز کے بڑے بڑے لوگوں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں،وہیں ہمارے سب سے محفوظ و طاقت کے علمبردار مقامات کو بھی ننگا کر کے رکھ دیا ہے، سیاسی قیادت سے لے کر اداراتی قیادت کا سارا کردار عوام کے سامنے واضح ہو نے لگا ہے ،یہ کون کہہ سکتا ہے کہ رازافشائی کا سلسلہ یہیںتک ہی رہے گا ،جبکہ ہیکر کا دعویٰ ہے

کہ اس کے پاس ملک کے حساس اداروں کے سربراہان کی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی دستیاب ہیں ،جو کہ بہت جلد سب کے سامنے آنے والی ہیں۔اس میں شک نہیں آڈیو اور ویڈ یو لیکس پہلی بار نہیں ہورہی ہیں ،اس سے قبل بھی سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف ایسے ہی ہوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ہیں ،لیکن اس بار معاملہ زیادہ گھبیرہو گیا ہے ، اس آڈیو لیکس نے جہاں وزیراعظم کے دفتر کی سکیورٹی کی

بابت تشویش بڑھا دی ہے ،وہیںنٹیلی جنس اداروں کی عدم موجودگی بھی کم تشویش ناک نہیں ہے، اس ریکارڈنگ ایک طرف سامنے آنا انتہائی تشویش ناک ہے تو دوسری جانب نعمت غیرمترقبہ بھی ثابت ہوئی ہے، اس آڈیو لیکس کی وجہ سے سیاسی قیادت کے کرادار کے ساتھ مجرموں کے ٹولے کو اقتدار پر مسلط کرنے والے ہاتھوں کی سازش بھی بے نقاب ہوگئی ہے۔اس وقت تک جو ریکاڈنگ منظر عام پر آئی ہیں،

ان سے ملک میں مختلف جماعتوںکے علاوہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے چلائی جانے والی بدترین سیاسی مہم کا پتہ چلتا ہے، اس جماعت نے ہمیشہ سیاست کے نام پر اخلاقی، مادی یا مالی ترغیبات دیتے ہوئے انسانی ضمیر کی تجارت کی ہے،سیاست میں ان کے داخلے کا بنیادی مقصد ایک ہی خاندانی بادشاہت کو توانا کرنا ہے کہ جو ملک کو اپنے تابع کرکے ہمیشہ کے لیے حکومت کرتا رہے، یہی وجہ ہے

کہ سیاسی میدان میں روایتی طور پر غالب کھلاڑیوں نے بے دردی سے ایک ایسا نظام تیار کیا ہے، جو کہ ان کے ذاتی مفادات سے مطابقت رکھتا ہے اوران کی اولاد وںکے سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے اس ظالمانہ نظام کی زیادتیاں مزیدبڑھتی جارہی ہیں۔ہمارے ملک میں مورثی خاندانوں کی ایجارہ داری کاخاتمہ ممکن دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،عوام کے مسترد کرنے کے بعد بھی وہی لوگ بار بار زبردستی اقتدار میں آجاتے ہیں

،انہیں کوئی روکنے والا ہے نہ کوئی ان کے مد مقابل آتا ہے ،اگر کوئی مد مقابل آجائے تو مقتدر قوتیںان کے ساتھ کھڑے ہو کر اُسے راستے سے ہٹا دیتی ہیں،اس سارے پس پردہ کھیل سے آڈیو لیکس میں پردہ اُٹھایا جارہا ہے،ایک مہذب جمہوریت میںایسی ریکاڈنگ حکومت کے استعفیٰ دینے کے لیے کافی ہوتی ہیں،لیکن یہاں پر مزید ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالفین پر مودا ڈالاجارہا ہے ،اس پر ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کی بات کی جارہی ہے ،اس سے کیا ہو گا ،متعدد مکروہ ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر پہلے

معاملے کی سنگینی کم کی جائیگی پھر من منشاء نتیجہ نکال دیا جائے گا، اس کاالزام وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے ارکان کے علاوہ باقی سب پر عائد کر دیاجائے گا۔ہمارے ہاں تحقیقاتی کمیٹیوں کے نتائج کی ایسی تاریخ بھر پڑی ہے ، اس ملک میں ہونے والے واقعات پر بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹس کے نتائج کبھی حوصلہ افضا نہیں رہے ہیں ،اس آڈیو لیکس پر بھی تحقیقاتی کمیٹی کچھ نہیں کر پائی گی

، لیکن یہ آڈیو لیکس پرانے اٹھائے گئے سوال کی جانب واپس لے جاتی ہیں کہ وہ کون سی ناگہانی آفت آن پڑی تھی کہ جس کی باعث سیتحریک انصاف حکومت ہٹا کر کرپٹ ٹولے کو ملک پر مسلط کردیا گیا؟ اگر تحریک انصاف قیادت کو صرف اسلئے جانا تھا کہ پاکستان آزادی سے ایسی پالیسیاں بنائے، جو کہ اس کے

مفادسے مطابقت رکھتی ہوں اور یہ چیز ناقابل قبول تھی تو کیا قومی سیاسی دائرے میں ان کے علاوہ کوئی ایسا مہذب آدمی نہیں بچا تھا جو قابل اعتبار ہو؟ ایک بار بار آزمائے ٹولے کو دوبارہ عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے کہ جس کا خود کو بچانے اور خود کو بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا ایجنڈا نہیں اور وہ اپنے ہی ایجنڈے پر گامزن اپنے مفادات کے حصول کو ممکن بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
اس مذموم ایجنڈے کے تحت ہی مریم نواز اور کپٹن( ر) صفدر مقدمات سے بری ہوئے اور اس منصوبے کے

تحت ہی مفرور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، جنھیں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے سرکاری طیارے میں ملک سے فرار ہونے میں مدد دی تھی، بطور سینٹر اور وزیرخزانہ موجودہ وزیر اعظم کے طیارے میں واپس آگئے ہیں، کیا کبھی کسی جمہوری سیاست میں ایسا ظلم دیکھا گیا ،جہاں ایک مبینہ مجرم وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھا کر نظام کو یرغمال بنائے، تاکہ اس کے تمام ساتھیوں کے گناہ دھل جائیں؟ اس وقت پاکستان میں یہی کچھ ہورہا ہے ، جب کہ ایوان اقتدار سے لے کر مقتدرہ حلقوں میں کسی کی

پیشانی تک شکن آلود نہیں ہے،کیا اس ملک میں جرم کرنا ہی واحد محفوظ راستہ رہ گیا ہے کہ جو مرضی کر گزریں، ہر الزام سے بچ نکلنے میں نہ صرف مدد کی جائے گی، بلکہ ایک بار پھر اقتدار کی راہداریوں میں راستہ بھی ہموار کیا جائے گا، تاکہ اطاعت گزاری کے ساتھ یہاں بٹھانے والوں کی ہی خدمات سرانجام دیے سکیں،اس لیے آڈیو لیکس جتنی مرضی آجائیں ،حکمرانوں پر اثر انداز ہوں گی نہ ہی کوئی فرق پڑے گا،کیو نکہ ایسا پہلی بار ہو نہ آخری بار ہو رہا ہے ،ایساتو ہوتا ہے شب روز تماشا مرے آگے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں