آزاد کشمیر کے بدقسمت سکولز
“تحریر:محمد نصیر (عباسپور) “
8 اکتوبر 2005 کے زلزلہ کو سترہ سال مکمل ہورہے ہیں۔یہ قیامت خیز دن ستر ہزار سے زاید لوگوں کے لیے پیام اجل لے کر آیا۔ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ زخمی ہوئے اور تیس لاکھ سے اوپر لوگ بے گھر ہوئے۔متاثرہ علاقوں کا سکول انفراسٹرکچر سب سے زیادہ تباہی سے دوچار ہوا۔یونیسیف کی سٹڈی کے مطابق اٹھارہ ہزار بچے زمین بوس ہونے والے تعلیمی اداروں کے ملبے تلے آکر شہید ہوئے
میں بننے والی پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ گورنمنٹ کی ترجیحات میں بھی سکولوں کی تعمیر کہیں شامل نہیں۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ تمام انتخابات میں عوام کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔نہ آج تک سننے میں آیا کہ سکولوں کی عدم تعمیر کو لے کر کہیں احتجاج کیا گیا ہو۔پورے آزاد کشمیر کی طرح ہمارے حلقہ انتخاب عباسپور میں بھی اکثریتی سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے
۔زلزلہ سے متاثرہ گنے چنے سکول ہی دوبارہ تعمیر ہو سکے۔عباسپور سٹی گرلز ہائی سکول ‘ گرلز اور بوائز ہائی سکول کھلی درمن ‘ بواہز ہائی سکول مرچکوٹ سمیت درجنوں تعلیمی اداروں میں کھلے آسمان تلے تدریس کا عمل سر انجام دیا جارہا ہے۔عباسپورین سوشل گروپ کے نام سے موسوم ہماری سماجی تنظیم کے پلیٹ فارم سے بارہا سکولوں کی عدم تعمیر کے معاملے کی جانب سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور توجہ دلانے کی کوشش کی گئی
مگر حکمران تو الگ عوام نے بھی کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سکولوں کی تعمیر کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔عوام صدائے احتجاج بلند کریں کیونکہ ترقی کا انحصار تعلیم پر ہے اور سکول اس سلسلے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں