پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان 38

سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کا خاتمہ !

سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کا خاتمہ !

ملک بھر میں سیاسی محاذ آرائی بڑھتی جا رہی ہے، اس سیاسی محاذ آرائی میں ایک طرف الزام تراشی کی جارہی ہے تو دوسری جانب مسلح افواج کی قیادت کو سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے، ترجمان پاک فوج کی جانب سے بار ہا تنبیہ کی گئی ہے کہ ملک کے بہترین مفاد میں پاک فوج کو سیاسی گفتگو سے دور رکھا جائے،

مگر سیاسی قیادت جمہوریت کی آڑ میں ریاستی اداروں پر تنقید سے باز نہیں آ رہے ہیں، کبھی سر براہ پاک افواج کی توسیع ملازمت پر بحث شروع کردی جاتی ہے تو کبھی سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کا بہانہ بنا کرحرف تنقید بنایاجاتا ہے

، یہ کون سی جمہوریت ہے کہ جس کا جب جی چاہے کھڑے ہو کر کبھی معزز عدلیہ اور کبھی دفاعی اداروں کی اعلیٰ قیادت کو ڈکٹیٹ کرنا شروع کردے، قوم ایسی کسی کوششیںکا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ افواج پاکستان عوام کا ہی حصہ ہیں اور عوام کو بے انتہا عزیز ہیں، لیکن عوام چاہتے ہیں کہ فوجی قیادت سیاست میں مداخلت کرے نہ کسی ایک کی پشت پناہی کی جائے ، اس حوالے سے تر جمان پاک افواج بارہا یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں رہا ہے، عوام مانتے ہیں کہ فوجی قیادت نیوٹرل ہو گئی ہے، مگر سیاسی قیادت ہی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے

،اس لیے بار بار کسی نہ کسی حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی کو شش کرتے رہتے ہیں ،تاہم سر براہ پاک افواج نے امریکہ دورے کے دوران اپنے رواں سال 14 اپریل کو کیے گئے اعلان کو دوبارہ دہرایا ہے کہ وہ دو ماہ میں اپنی دوسری تین سالہ مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہوجائیں گے اور قوم کو یقین دلایا ہے کہ مسلح افواج نے نہ صرف خود کو سیاست سے دور کرلیا ہے،بلکہ کسی سیاسی امور میں مداخلت کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔
آرمی چیف کے بیان کے بعد پاکستانی سیاست میں غیرسیاسی مداخلت اورآرمی چیف کی توسیع کی بحث کا خاتمہ ہونے کے امکان پیدا ہوتے نظر آنے لگے ہیں، حالاں کہ اس سے قبل افواج پاکستان کے ترجمان بار ہا بیان دے چکے تھے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت میں توسیع کے خواہاں ہیں نہ سیاست میں مداخلت کے حامی ہیں،لیکن اس کے باوجود نہ صرف غیر سیاسی مداخلت کی بحث جاری رکھی گئی

،بلکہ تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کے بعد اس میںمزید تیز ی بھی آگئی تھی،تاہم ایک بار پھر آرمی چیف نے واضح طور پر اپنے بیان کے ذریعے تمام ابہام دور کرنے کی کوشش کی ہے ،لیکن دیکھنا ہے کہ اس پر آنے ولے وقت میں عملدرآمد کیسے اور کس انداز میں ہوتا ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ ریاستی اداروں پر حرف تنقید کرنے والوںکی رگیں مقتدرہ کے ہی ہاتھوں میں ہیں، وہ چاہیں

تو انہیں ایسے کاموں سے روک سکتے ہیں اور انہوں نے بار ہا ایسا کر کے بھی دکھایا ہے،لیکن اس وقت جان بوجھ کر ڈیل اور ڈھیل دی جارہی ہے ،تاہم اس وقت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے، لیکن اس بات پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ مسلح افواج نے واقعی پاکستانی سیاست میں مداخلت سے دور رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس بے یقینی اور شبہات کی وجہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے،اس سیاسی تاریخ میں چار بار فوج نے براہ راست مداخلت کی ہے اور مارشل لا لگایاگیا ہے

،اس کے علاوہ ہر سیاسی حکومت کے پیچھے بھی فوجی قیادت ہی حکومت کرتی رہی ہے،اس سے جتنا مرضی بظاہر انکار کیا جائے ،مگر ان حقائق کو جھٹلایا جاسکتا ہے نہ اس کے خلاف سیاسی قیادت کوئی مزاحمت کر سکتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاسی حکومتیں چاہتے ہوئے بھی غیر سیاسی مداخلت کے خلاف ایسی کوئی مزاحمت نہیں کرسکیں ہیں ، جیسا کہ اس کا تقاضا تھا،لیکن اس وقت حالات تبدیل ہوچکے ہیں، اس وقت براہ راست مارشل لا کا نفاذ ممکن ہے نہ کھولے عام براہ راست مداخلت کی جاسکتی ہے ، حالاں کہ موجودہ بدترین معاشی حالات ماورائے پارلیمان اقدامات کے لیے سازگار بنادیئے گئے ہیں

،اس کے باوجود فوجی قیادت ماورائے پارلیمانی اقدام سے گریزاں نظر آتی ہے ،موجودہ آرمی چیف ایک مرتبہ توسیع حاصل کرچکے اور سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کے بھی خواہاں نہیں ہیں، کیو نکہ سیاست میں غیر سیاسی مداخلت نقصان کا ہی باعث بنتی رہی ہے، یہ ان کی نیک نامی کے لیے بھی ضروری ہے

کہ اپنے بیانئے کو عملی جامع پہنائیں، تا کہ پاکستانی قوم اپنے اجتماعی ارادے سے اپنی منشاء کے مطابق اپنے سیاسی سفر کو آگے بڑھاسکے،یہ بظاہر مشکل ضرور نظر آتا ہے ،لیکن اگر ارادہ پختہ رکھاجائے توناممکن نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں