سیاسی استحکام کیلئے اجتماعی جدوجہد ناگزیر !
پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکا ہے،ہماری سیاسی قیادت بظاہر جمہوریت کی بڑی دعویدار ہے ،لیکنان سب کے عمومی رویئے غیر جمہوری ہی رہے ہیں،گزشتہ روز روز صدرمملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا ، یہ خطاب ایک جمہوری اور آئینی تقاضاہے کہ جس میں ریاستی اداروں کے سربراہوں کیساتھ ساتھ غیرملکی سفیروں اور اہم شخصیات کو بھی مدعو کیا جاتا ہے‘
لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ خطاب کے دوران ارکان پارلیمان نے جس غیرجمہوری رویئے کا مظاہرہ کیا ہے ،وہ ہمارے جمہوری نظام پر ایک سوالیہ نشان ہی نہیں بلکہ جمہوریت کے چہرے پر بدنما داغ کے مترادف ہے۔اس میں شک نہیں
کہ سیاست میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا ہے اور اسے قائم رکھتے ہوئے بھی قومی عزت ووقار کو مقدم رکھا جاسکتاہے ،لیکن ارکان پارلیمان نے سب کچھ صرف نظر کرتے ہوئے جو رویہ رورکھا ،اس سے پوری دنیا میں پارلیمنٹ کی بے توقیری ہوئی ہے، اس صورتحال کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں ،ساری سیاسی قیادت ہے کہ جن کے عدم برداشت کے رویئے کے باعث جگ ہنسائی ہوئی ہے
،تاہم صدرمملکت نے اپنے خطاب میں ایک بار پھرسیاسی جماعتوں میں افہام و تفہیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پولرائزیشن کے خاتمے کی اپیل کی ہے،صدر مملکت کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات کا سال ہے،ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کرنے چاہئے، قومی راز عیاں نہیں ہونے چاہئے، آڈیو لیکس پر تحقیقات خوش آئند ہے،لیکن ملک میں معاشی ترقی کیلئے مستقل سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے۔
بے شک صدرمملکت کا اظہار خیال انتہائی اخلاص کے ساتھ قومی ہمدردی کا عکاس ہے، لیکن ملک میں جو سیاسی صورتحال دکھائی دے رہی ہے، وہ ان کی خواہشات کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،ایک طرف حکومت انتقامی سیاست کی راہ پر گامزن ہے تو دوسری جانب اپوزیشن سرپہ احتجاج ہے
،دنوں کی محاذ آرائی میں انتشاربڑھتا جارہا ہے، اس قسم کی صورتحال کا ملک قطعی طورپر متحمل نہیں ہوسکتا،اس سے نہ صرف ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ، بلکہ اس کے نتائج ساری سیاسی جماعتوں کو بھی بھگتنا پڑیں گے،اس صورت حال میںصدرمملکت کی ہی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی قیادت کو ایسے اقدامات سے روکیں کہ جو ملک کو انارکی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
اس وقت ملک انتہائی نازک صورت حال سے گزررہا ہے اور کسی محاذ آرائی یا انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا
، جبکہ سیاسی قیاد ت قومی مفادکی بجائے ذاتی مفادات کو تر جیح دیے رہے ہیں ، ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے اور گرانے کیلئے تمام تر جائزوناجائز حربے استعمال کیے جارہے ہیں ،اس صورتحال میں صدرمملکت سیاسی قیادت سے جس افہام وتفہیم کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں،وہ روبہ عمل آسکے گی ،جبکہ حکومت اور اپوزیشن قیادت دو نوں ہی انتہائوں پر کھڑے ہیںاورایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا تو درکناردیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں، اس کیفیت کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے‘
لیکن یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی تیسرا فریق ثالث کے طور پر سامنے آئے اور ان دو انتہائوں پر کھڑے اہل سیاست کو اعتدال پر لانے کیلئے اپنا کردار اداکرے، بصورت دیگر تصادم کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس بار سیاست میںبڑھتی تلخیاں ایسے مقام پر نظر آرہی ہیں کہ جہاں مخالف پارٹیوں، دھڑوں اور حلقوں کو قومی مفاد میں یکجا کرنے اور مکالمے کے ذریعے بعض امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی مخلصانہ کوششوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے،اس باب میں ریاستی اداروں کو لاتعلقی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اپناکردار ادا کرنا ہو گا ،ملک پہلے سے ہی معیشت کی لاغری سمیت بعض سنگین مسائل کا شکار ہے، اس سے نکلنے کے لئے متفقہ و مشترکہ لائحہ عمل اور کاوشیں ضروری ہوگئی ہیں
،مقتدر حلقوں کی کائوش ملک کو سیاسی و معاشی بحران سے نجات دلاسکتی ہے ،عوام کے نمائندوں کو عوام سے رجوع کرنے پر راضی کر سکتی ہے ،اگرسیاسی قیادت عوام کو طاقت کا سرچشمہ مانتی ہیں تو عوام سے رجوع کرنے میں تامل نہیں کرنا چاہئے،ہمارے سیاسی رہنماؤں کو معاملات کو سلجھانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا،ساری سیاسی جماعتوں کو یک نکاتی ایجنڈے پہ اکٹھا ہونا پڑے گا،
سیاسی عدم استحکام کے لیے اجتماعی جدوجہد ناگزیر ہے، لہٰذا سیاسی رہنماؤں اور قومی اداروں کو ان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے متحرک ہونا پڑے گا،اس وقت حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، وہاں پر غیرمعمولی تدبر اور فہم وفراست کی انتہائی ضرورت ہے۔