43

سفرِ ناتمام

سفرِ ناتمام

مدثر اقبال بٹ/ آوازِ پنجاب

پرکھوں سے سنا ہے انسان کبھی اپنے محور سے نہیں ہٹتا‘ اپنے مرکز سے دور نہیں جاتا۔ دنیاداری کی مسافرت میں وہ چاہے کہیں بھی چلا جائے‘ اپنی مٹی کے اثر سے دور نہیں جا سکتا‘ جڑیں اپنی زمین میں ہی رہتی ہیں۔ چاہے وہ اپنی پہچان بدل لے‘ اپنی شناخت مٹا دے‘ اپنا رنگ‘ اپنا روپ سروپ کچھ الگ سا کر لے لیکن اس کے اندر‘ کوئی گوشہ تو ایسا ضرور ہوتا ہے جہاں اس کی اصلیت تادمِ مرگ زندہ رہتی ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جو اپنی مٹی کی کشش برقرار رکھتا ہے۔ مٹی اُسے اپنی طرف کھینچتی ضرور ہے

۔ چاہے زندگی کے کسی موڑ پر بھی کھینچے۔ یہ بات اور کہ دنیا کے اس ہجوم میں انسان یوں کھو جائے کہ اسے اپنے ہونے اور نہ ہونے کا احساس ہی نہ رہے لیکن جب لمحوں کے سودوزیاں سے فرصت ملے گی‘ وہ تنہائی میں اپنے اندر کو کھوجے گا ۔ اسی تلاش میں اسے اپنی کھوئی اصلیت ملے گی ضرور۔ اس کا گمشدہ ہمزاد اسے اپنی اصل حقیقت کی طرف ضرور لے جائے گا۔ آپ میں سے بہت دوست اس سچائی سے تو آشنا ہوں گے اور انہوں نے لوٹ کر اپنی حقیقت کی مسافت بھی طے کی ہوگی

۔گمشدہ وقت کو تلاش تو ضرور کیا ہوگا۔ بیتے لمحوں کا حساب تو کیا ہوگا۔ بیتے سمے کی اور لوٹ کر سفر کرنے کی کوشش تو ضرور کی ہوگی۔میں اگر یہ کہوں‘ اپنے ہمزاد کے ساتھ ‘ اپنی اصل حقیقت‘ اپنے ماضی کی جانب یادوں کے رَتھ پہ سوار ہو کر سفر کرنا دنیا کا سب سے بڑا رومانس ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ آپ اگر اپنی مٹی سے دور ہیں۔ کسی بیگانے دیس میں کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ کے بچے اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا پھر کامیاب کاروبار کے ذریعے بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ان سب نعمتوں کے باوجود‘ آپ کوایک عجیب سی کمی کا احساس تو ضرور ہوگا۔ ایک ایسے خلا کا ادراک تو ہوگا جو ان سبھی نعمتوں کے باوجود بھی نہیں بھرتا۔ یہ سبھی سوغاتیں‘ یہ سبھی نعمتیں بھی آپ کو سیراب نہیں کر سکتیں۔زرخیز نہیں کر سکتیں۔ سینے میں ٹھنڈک تو اسی وقت پڑتی ہے جب آپ اپنی حقیقت‘ اپنے حقیقی مرکز‘ اپنی مٹی‘ اپنے وسیب کی طرف لوٹتے ہیں۔ اپنے آپ میں آتے ہیں‘ اپنی زندگی میں لوٹتے ہیں۔
دنیا جہاں کی آسائشیں چھوڑ کر جب آپ اپنے گائوں لوٹتے ہیں‘ اپنی گلیوں میں آتے ہیں۔ اپنے آپ میں ڈھلتے ہیں تو بیتے ماہ و سال ہوا ہوتے ہیں تو لمحہ موجود آپ کے ماضی کو حال سے ہم آہنگ کردیتا ہے۔ اس وقت جو سکوں ملتا ہے‘ وہ نہ تو لفظوں میں بیاں ہو سکتا ہے اور نہ رویوں سے عیاں ہوتا ہے۔

نہ ہی اس احساس کی شدت آپ کے علاوہ کوئی اور محسوس کر سکتا ہے۔میری پرورش وزیرآباد کے گائوں احمد نگر چٹھہ میں ہوئی۔ میرا خمیر اسی مٹی کا ہے۔ یہ وہی گائوں ہے جس کی مٹی نے حضرت حفیظ تائبؒ جیسا سچا عاشق رسولؐ پیدا کیا۔ میرے والد صاحب صوفی غلام محمد بٹؒ حکمت کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ عام طور پر اس شعبہ کے لوگ دھیمے مزاج کے حامل ہوتے ہیں لیکن والد صاحب ویسے نہیں تھے۔ انہوں نے ہمیشہ باطل کا رستہ روکا اور ظالم کے سامنے ڈَٹ گئے۔ اس کے باوجود کہ میں اُن کا اکلوتا بیٹا تھا۔

وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر حق و صداقت کے ساتھ رہے۔ بزدلی یا مصلحت کے اسیر نہ ہوئے۔ مجھ سے زیادہ اپنے اصولوں سے پیار کیا۔ سچائی کا علم یوں تھاما کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ مجھے ان سے کچھ ملا نہ بھی ہوتالیکن یہ احساس ضرور ہوتا کہ میں اس باپ کا بیٹا ہوں جس نے اکیلے ہی ظالموں اور غاصبوں کا راستہ روکا۔ باطل کے آگے فصیل بن گئے۔ وقت اچھا برا جو بھی تھا لیکن وہ سچائی کے لیے ڈٹے رہے

۔ اپنی بات پر اَڑے رہے۔ اپنے اصولوں کو تقاضۂ ایمانی سمجھ کر نبھایا۔ ان کے اسی مزاج نے مجھے تحریک دی‘ حوصلہ دیا۔ اور جذبہ عطا کیا۔ وہ ہمت اور جرات ملی جس کے بل پر میں نے اپنی جوانی طبقاتی تفریق جیسے منفی رویوں کے خلاف لڑنے میں بسر کی۔ درجنوں جھوٹے سچے مقدمات اور جیل یاترا بھی مجھے اپنے رستے سے نہ ہٹا سکی۔
سچ کے اسی الائو نے جہاں مجھے کندن بنا دیا وہاں ایسے ساتھی بھی ملے جو اس کیفیت جنوں سے بھی آگے تھے۔ زندگی اور موت کی پرواہ کیے بغیر میرے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔ دوستوں سے بڑھ کر بھائی ہونے کا حق ادا کیا۔ میں اکیلا تھا مگر انہوں نے مجھے تنہا نہیں رہنے دیا۔ وہ جو اکیلا پن سوچوں میں زہر بھر سکتا تھا۔ خوف کی ساعتوں میں ڈھل سکتا تھا۔ڈر کی آغوش میں ڈال سکتا تھا۔دوستوں ساتھیوں کی رفاقت سے وہ زہر عنقا ہوا۔ میرے پختہ ارادے متزلزل نہ کر سکا۔ اپنی راہ سے ہٹا نہ سکا۔
یہ بات 80ء کی دہائی کے بعدکی ہوگی جب میں نے اور میرے دوستوں نے جن میں طارق رسول ڈھلو‘ سیٹھ احسان اللہ‘ ملک امتیاز‘ اعجاز حسین عاجز‘ ناصر مقبول‘ ساجد خلجی اور دوسروں کے علاوہ چچا جی ثنااللہ اور ظفر اقبال سیکرٹری بھی شامل تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا‘ ہم وزیرآباد کے نوجوانوں کو کھیلوں کے ذریعے منشیات اور دوسری برائیوں سے بچائیں گے۔ یہ ہماری شب و روز محنت کا نتیجہ تھا۔ ہم نے اپنے گائوں احمد نگر کو علاقے کی کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کا ایسا مرکز بنا دیا

جو پورے ضلع کی پہچان بنا۔ کبڈی‘ کرکٹ،والی بال‘ نیزہ بازی سمیت کوئی ایسا کھیل نہ تھا جس کا میدان نہ سجا ہو۔ پوری دنیا میں نام کمانے والے کھلاڑیوں نے احمد نگر کا رخ کیا۔ علاقے کے نوجوانوں کو کھیل کے میدان آباد کرنے کی تحریک دیتے رہے۔ ایسا سنہرا دور تھا۔ دن کے وقت کھیلوں کے میدان سجتے اور راتوں کو مشاعرے اور موسیقی کی محفلیں آباد ہوتیں۔ کبھی استاد امانت علی خان‘ فتح علی خان‘ حامد علی خان اور اسد امانت علی جیسے فنکار کلاسیکل موسیقی کے سر بکھیرتے۔ پکے راگوں کی بہار ہوتی

اور کبھی لوک گائیکی و موسیقی کی جلترنگ ہوتی۔ کون سا ایسا بڑا فنکار ہے جو ہمارے احمدنگر نہیں آیا۔ سبھی آتے اور میلہ سجاتے۔ میرے ساتھیوں نے اس شہر آرزو کو زندہ ثقافت کا گڑھ بنا دیاتھا۔ سوئے جذبوں کو جگا دیا تھا۔
وہ کیا کہ‘ کہتے ہیں نا‘ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ ہماری رفاقت جو اَنمٹ تھی‘ وہ سانجھ ‘ وہ جڑت جو کبھی ٹوٹنے والی نہ تھی۔ وہ رستے جو کبھی کھوٹے نہ ہوئے تھے۔ انہیں وقت کی نظر لگ گئی۔ ہم سبھی دوست‘ ساتھی‘ رفیق‘ آشیاں کے تنکوں کی طرح بکھر گئے۔ رزق وسیلوں کی تلاش میں اپنے مرکز سے دور ہوتے چلے گئے۔اور پھر وہ وقت ناپرساں بھی دیکھنا پڑا۔ طارق کینیڈا میں جا بسا۔ اعجاز دبئی چلا گیا اور سیٹھ احسان اللہ بھی دبئی سدھارا۔ ملک امتیاز نے ملتان میں پناہ لی اور میں بھی اپنے احمد نگر کو دل میں بسائے لاہور چلا آیا۔ دھڑکنیں وہاں رہ گئیں‘ جسم یہاں آ گیا۔چرخ کہن نے یہ دن بھی دکھانے تھے۔
لاہور آیا تو نئے سرے سے حیات نو کا آغاز کیا۔ جو ریت روایت اپنے والد صاحب سے سیکھی وہی تو زاد ِراہ تھا‘ ورثہ تھا میرا۔ یہی اثاثے میرے کام آئے۔ شاعر بے بدل منیر نیازی کہا کرتے تھے لاہور کسی ایرے غیرے کو نہیں مانتا لیکن اگر کوئی اس کا دل جیت لے تو پھر یہ شہر اسے اپنے من میں بسا لیتا ہے اور کسی محبوب کی طرح چاہتا ہے۔
وہ بہت مشکل وقت تھا جب میں لاہور آیا۔ یہاں ڈاکٹر یوسف نے میرے کندھے کے ساتھ کندھا ملایا۔ بہت ساتھ نبھایا اور پھر میرے جیسا انسان کہ جس کے جینز میں ہی ظالموں کو للکارنا ہو‘ اسکی للکار میں چھوٹے بڑے شہر کی تفریق کہاں ہوتی ہے۔ وہ تو اپنے ہدف پہ وار کرتا ہے۔ وہ اپنے ٹارگٹ سے پسپائی اختیار نہیں کرتا

۔ بلاخوف و خطر اس کی پیش قدمی جاری رہتی ہے۔میں نے بے سروسامانی کے باوجود یہاں کے مگرمچھوں کو چھیڑا۔ لڑائی جھگڑے مول لئے۔ پولیس کے پرچے بھی راہ سے ہٹا نہ سکے۔ نہ عدالتوں کے پھیرے ڈگمگا سکے۔ میں نے جن بالا دستوں سے ماتھا لگایا‘ جن سے لڑا وہ کوئی اچھے یا نیک نام نہیں تھے۔ دل کے میلے تھے‘ ان کے رابطے بڑے تھے‘ ضابطے کڑے تھے۔ گٹھ جوڑ کے نظام میں سبھی کچھ ان کے تابع تھا۔ سسٹم ان کا رکھیل تھا۔ نوکر شاہی ان کی وفادار تھی۔ تگڑے بدمعاش ان کے دست و بازو تھے۔

میں پھر بھی نہیں گھبرایا کیونکہ میری طاقت میری سچائی تھی۔ میں حوصلہ مند رہا کہ میں نے ظالموں سے ٹکر لی ہے۔ مظلوموں کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔ غریبوں کی حمایت میری جھولی میں ہے۔ مجھے یقین تھا رب تعالیٰ مجھے ہارنے نہیں دے گا۔ پھر ہوا یوں‘ اُس سوہنے پروردگار نے میرا مان رکھا۔ باوجود اس کے میں نہتا اور بظاہر کمزور تھا۔ اکیلا ہونے کے باوجود مجھے سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ مجھے عزت سے نوازا۔
اب یہ وقت ہے‘ لاہور مجھے جانتا ہے اور میں لاہور کو پہچانتا ہوں۔ اس کی نبض پر انگلیاں ہیں میری۔ اس زندہ دل شہر سے مجھے بڑی محبت ہے۔ اس سے بڑھ کر محبت کیا ہو سکتی ہے۔ میں نے اپنی متاع حیات‘ اپنی جنت‘ اپنی ماں کو اس شہر کی مٹی کے حوالے کیا۔ میری سب سے قیمتی شے‘ میری ماں اسی شہر کی مٹی میں آسودۂ خاک ہے۔ اس شہر نے مجھے جتنا آزمایا اس سے بڑھ کر نوازا بھی۔
لیکن دوستو‘ سچی بات تو یہ ہے کہ جو عشق احمد نگر چٹھہ سے ہے لاہور شہر کے احسانوں اور محبتوں نے بھی اس کا رنگ پھیکا نہیں ہونے دیا۔ آج بھی دل کی دھڑکنیں وہیں پر ہیں اور وہ دل جو اپنے ساتھ یہاں لے آیا تھا اس میں پورا احمد نگر آباد تھا جو آج بھی زندہ ہے۔ وہ جیتا بھی رہے گا‘ دم نہیں دے گا۔ اپنے گائوں کی گلیاں‘ چوک چوراہے آج بھی میرے اندر آباد ہیں۔ وہ شجر سایہ دار آج بھی تنومند ہیں جن کی ٹھنڈی چھائوں کبھی نہیں بھولا۔ بھول بھی کیسے سکتا ہوں۔ بھلا احمد نگر بھی بھولنے والی کوئی چیز ہے؟

اپنی مٹی کی خوشبو سے بھی کبھی بے وفائی ہوتی ہے؟پچھلے دنوں جب والد صاحب کے برخوردار حفیظ اللہ منہاس اور ان کے ساتھیوں نے وہاں ان کی برسی کا اہتمام کیا تو مجھے بھی آنے کا بلاوا بھیجا۔ جب سندیس ملا تو میں اپنے دوستوں اور اپنے برخورداروں سمیت وہاں جانے کے لئے لاہور سے چل پڑا۔سچی بات تو یہ ہے

جب لاہور سے چلا تو بالکل جذباتی نہیں تھا لیکن جونہی احمد نگر کی حدود میں داخل ہوا توجیسے اشکوں نے بھگو دیا۔ یوں لگا کہ جیسے سڑک کنارے لگے درخت‘ پودے اور پھول مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے پوچھ رہے ہوں کہ کیسے ہو جوان؟ کیا بات ہے‘ گائوں کی محبت پھیکی پڑ گئی؟ بہت دنوں کے بعد پھیرا ڈالا۔
ہر دیس کی اپنی اپنی بولی
صحرا کی چپ بھی صدا ہے
میں اپنے گائوں کے گھنے درختوں کی خاموشی کی زبان سن کر چپ بیٹھا تھا۔ میری آنکھوں کی نمی اپنے آپ سے محو کلام تھی۔ اس شہر کے اک اک ذرے میں آج بھی بیتے سمے کے ہر ایک پل کی خوشبو رچی تھی۔
وقت کے پلوں کے تلے سے جانے کتنا پانی گزر چکا تھا۔ کچے راستے ضرور تارکول کے پیکر میں ڈھلے تھے۔ کھیتوں کھلیانوں کی جگہ کنکریٹ کی ایک نئی دنیا آباد ہو چکی تھی لیکن چاہتوں کی مہک مدھم نہ ہو سکی بلکہ اور بھی جنوں خیز تھی اور میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔
حفیظ اللہ منہاس اور ان کے ساتھیوں نے محدود وسائل کے باوجود نہایت شاندار اور پروقار تقریب منعقد کی۔ احمد نگر چٹھہ کے باسیوں نے محبتوں کے ترازو میں یوں تولا کہ ثابت کر دیا اس مٹی کے لوگ اپنے سر پر کوئی قرض رہنے نہیں دیتے۔تقریب سے فارغ ہوئے تو چودھری طارق ڈھلو اپنے ساتھ لے گیا۔ ادھر انکار‘ ادھر اصرار‘ نہ نہ کرتے بھی اس نے میری اور ساتھیوں کی خدمت میں کمی نہ چھوڑی‘ کوئی کسر نہیں رہنے دی۔

سیٹھ احسان وہیں سے ہمیں اغوا کر کے اپنے ڈیرے پر لے گیا۔ اس نے صرف یہی بات مانی کہ وہاں ماسوائے چائے کے‘ کچھ اور نہ ہوگا۔ لیکن دستر خوان پر بیٹھے تو یوں لگا‘ جیسے اِس ملوانے نے فرشتوں سے سازباز کر کے بہشت حسیں کے باورچی خانے میں سیندھ لگا دی ہے۔ کونسی ایسی نعمت تھی جو روبرو نہ تھی۔

سب سے قیمتی شے تو وہ سنگت تھی جو نصیب میں لکھی گئی۔ بچپن سے جوانی تک کے وہی ساتھی دوست احباب وہاں پہ تھے جو اچھے برے حالات میں کندھے سے کندھا ملا کر میرے ساتھ رہے۔ رفاقتوں کی سانجھ نبھاتے رہے۔ ہر قدم پہ ساتھ رہے۔ کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ میں اکیلا ہوں۔ یہی محسوس ہوتا رہا‘ ہجوم دوستاں ہم رکاب ہے۔ چاہوں تو وقت کی طنابیں کھینچ لوں۔ وہ قلعے سر کر لوں جو ناقابل تسخیر ہیں۔
وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔ پرانی یادوں کی آغوش میں یوں کھوئے کہ سدھ بدھ نہ رہی۔ ان دوستوں کو یاد کرتے رہے جو آج ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ دل کرتا تھا‘ اس محفل کا اختتام نہ ہو۔ چاہتوں کے رفاقتوں کے اس سفر کا انجام نہ ہو۔ صبح عاشقی میں شام نہ ہو۔باتوں کے سلسلے کا حساب نہ ہو۔ جدائی کا نصاب نہ ہو۔ یونہی بیٹھے رہیں‘ لمحوں کا شمار نہ ہو۔ یونہی بیٹھے دل کی باتیں کرتے رہیں۔ دکھ سکھ کی روئی دھنکتے رہیں۔ یادوں کے دشت میں بھٹکتے رہیں۔ واپسی پہ اختیار نہ ہو۔ جدائی پہ اعتبار نہ ہو۔ وقت باندھ کر ایک طرف کر دیں۔ لوٹ کر جانے کا ملال نہ ہو۔ بچھڑنے کا خیال نہ ہو۔ خدا کرے کسی سے پیار نہ ہو۔
لیکن وہ کیا کہ سبھی اختیار تو اوپر والے نے انسان کو نہیں دیے۔ ملاپ کے بعد جدائی مار دیتی ہے۔ بار دیتی ہے‘ دور ہونے کی سار دیتی ہے۔
وقت مشکل تھا‘ نہ چاہتے ہوئے بھی‘ لوٹ کر جانے کی اجازت لینی پڑی۔ دکھ بھری تھی وہ گھڑی۔ اک کوہ گراں تھا‘ اٹھانا پڑا۔ لوٹ کے آنا پڑا۔ یوں لگا کہ جیسے ایک بار پھر وہی ہجرت ہے‘ مسافرت ہے۔ دل گرفتہ تھا۔ شاید پھر کبھی لوٹ کے آ نہ سکوں۔ خود کو پا نہ سکوں۔ جن صعوبتوں سے گزرتا ہوں وہ زخم کبھی دکھا نہ سکوں۔
پھر ہوا یوں بھی‘ لوٹ کے آنا پڑا۔ ساتھیوں سے بچھڑنا پڑا۔ پھر وہی لمحہ جاں گسل سامنے۔ وقت رخصت بھی رونا پڑا۔ رفاقتیں کھونا پڑیں۔
لگا یوں کہ جیسے ایک بار پھر سے دھڑکنیں احمد نگر چٹھہ میں چھوڑنی پڑیں۔ لگامیں موڑنی پڑیں۔ دل کی خالی رحل لیے لاہور کی جانب چل پڑا‘ وقت کڑا‘ پھر وہی لاہور سامنے جو میرا محسن ہے لیکن پہلی محبت تو نہیں۔
ہم سے اپنے گائوں کی مٹی کے گھر چھینے گئے
جس طرح شہری پرندوں سے شجر چھینے گئے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں