پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان 52

عام انتخابات کی ہموار ہوتی راہیں !

عام انتخابات کی ہموار ہوتی راہیں !

ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 8 اور صوبائی اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے اور پی ٹی آئی کے عمران خان 8 میں سے چھ نشستوں پر فاتح رہے اور دو نشستوں پر پیپلز پارٹی جیت گئی

،جبکہ صوبائی اسمبلی کے 2 حلقوں پر پی ٹی آئی اور ایک پر مسلم لیگ (ن) جیت گئی ہے،یہ ضمنی انتخابات اسمبلی میں پارٹی پوزیشن تبدیل کرنے سے زیادہ اس بات کا فیصلہ تھے کہ پی ڈی ایم کے مقابلے پر عمران خان کتنے مقبول ہیں اور عمران خان نے 7 میں سے 6 نشستیں جیت کر ثابت کردیا ہے

کہ وہ پی ڈی ایم کے امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں۔تحریک انصاف قیادت نے ضمنی انتخاب میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کی ہے ،لیکن اس کے باوجود سیاسی صورت حال میں کوئی قابل ذکر تبدیلی کا امکان دکھائی نہیں دیے رہاہے،تاہم تحریک انصاف قیادت عام انتخابات کے حوالے سے نہ صرف اپنے بیانے پر قائم ہیں ،بلکہ ضمنی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی نے ان کے سیاسی اعتماد میں مزید اضافہ کردیا ہے

اور جو بات پچھلے چھ ماہ سے کہتے چلے آرہے ہیں ،اب زیادہ زور دیے کر کہنے لگے ہیں کہ اگر عام انتخابات کا اعلان نہ کیا گیا تو تو لانگ مارچ کا اعلان کردیا جائے گا ،اس کے جواب میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ لانگ مارچ روکنے کی باتیں کررہے ہیں ، اس بھڑتی سیاسی محاذ آرائی کے نتائج انتہائی خطر ناک بھی ہو سکتے ہیں۔اتحادی قیادت سب کچھ جانتے ہوئے بھی جلتی آگ پر مزید تیل ڈال رہے ہیں

،ایک طرف اتحادی حکومت کو عوامی رائے کا احترام کرنا ہو گا تو دوسری جانب ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد عمران خان کو بھی طے کرنا ہو گا کہ کیا عوام میں اپنی مقبولیت کو ملکی جمہوری نظام مستحکم کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں یا اس مقبولیت کو دبائوکے ہتھکنڈے کے طور پر بروئے کار لاتے ہوئے مقتدر حلقوںکی مدد سے ہی ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے کی حکمت عملی اختیار کریں گے ،

پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے طاقت ور حلقوںکو مخاطب کرتے ہوئے جو اشارے دیے ہیں، اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف عوامی مقبولیت کے باوجود عوام کی حمایت و طاقت کو اقتدار تک پہنچنے کے لئے واحد قابل اعتبار راستہ نہیں سمجھ رہی ہے ،بلکہ اس کا خیال ہے کہ کسی بھی طرح مقتدر حلقوں کو باور کروایا جائے کہ اتحادی حکومت کو نئے انتخابات کروانے پر مجبور کرے ۔
ملک پہلے ہی مسائل کی دلدل میں گلے تک دھنسا ہوا ہے اوراتحادی حکومت ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرنے کے بجائے چتاونیاں دینے میں لگی ہے ،حکومت اور مقتدرہ حلقوں کو چاہئے کہ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے عام انتخابات کا انعقادممکن بنائیں ،اس وقت سیاسی بحران کا واحد حل شفاف عام انتخابات ہیں ، مقتدر حلقے کب تک خاموش تماشائی بنے رہیں گے اوراتحادی قیادت کب تک ہار کے ڈر سے انتخابات کرانے سے بھاگتے رہیں گے ،حکومت کیلئے عام انتخابات سے زیادہ دیر تک فرار ممکن نہیں رہاہے

، پی ٹی آئی قیادت ہی نہیں ،عوام کی اکثریت بھی شفاف انتخابات چاہتے ہیں ،اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی قیادت مل کر ایسے اقدامات یقینی بنائیں ،جو کہ انتخابات کی اصلاح کیلئے نا گریز ہیں ۔
ملک سیاسی عدم استحکام کے باعث بحران در بحران کا شکار ہورہا ہے ،اس صورت حال میں دانش مندی کا تقاضا ہے کہ سیاسی دھڑے محاذ آرائی کے بجائے افہام و تفہیم کی راہ پر گامزن ہوں،حکومت اور اپوزیشن کو اپنے سخت رویوں میں لچک پیدا کرتے ہوئے کوشش کرنا ہو گی کہ دونوں ہی فریق کسی ایسے نکتے پر متفق ہو جائیں کہ جس میں کسی بھی دھڑے کی پسائی کا تاثر نہ اُبھر ے ، اس حوالے سے بیک ڈورمذاکرات ہورہے ہیں

،اگرسیاسی دھڑے ضد کے بجائے ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں گے تو ایک اچھی پیش رفت ہو سکتی ہے ،سیاسی قیادت سے اُمید کی جانی چاہئے کہ درست سمت میں ہی سفر کر یں گے اور ملک و قوم کو مزید کسی بحرانی کیفیات سے دوچار نہیں کیا جائے گا ۔ملک جن بحرانوں سے دوچار ہے ان کی موجودگی میں قومی مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کی جائے،

اس سے حزب اقتدار اوت حزب اختلاف قیادت کو فائدہ ہی پہنچے گا ،جبکہ انارکی اور انتشار کی سیاست سے نہ صرف ملک کو نقصان پہنچے گا، بلکہ سیاسی جماعتوں کی سیاست کو بھی زک اٹھانا پڑے گی،اس وقت مناسب ہوگا کہ حکومت اور پی ٹی آئی قیادت مذاکرات کے ذریعے عام انتخابات کی راہیں ہموار کرے ،بصورت دیگر دونوں ہی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں