پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان 30

انتقامی سیاست کا خاتمہ کون کرے گا !

انتقامی سیاست کا خاتمہ کون کرے گا !

ملک میں نظام عدل جتنا مضبوط اور شفاف ہے، اس کا اندازہ سیاست میں جاری سیاسی کھیل سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے, یہ اس ملک کے نظام کا وطیرہ رہا ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت حکومت میں ہوتی ہے تو اپوزیشن میں موجود جماعت پر کیسز بنائے جاتے ہیں، انہیں عدالتوں میں کھسیٹا جاتا ہے اور جس طرح سے مخالفین کو بدنام کرنے کے لئے پروپگنڈے کئے جاتے ہیں، اس میں کسی کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے

نہ ہی ملکی مفاد کا خیال کیا جاتا ہے ،اقتدار میں آنے والوں کی ایک ہی کوشش رہتی ہے کہ ہر جائزوناجائز طریقے سے اپنے مخالفین کوسیاست سے باہر کر دیا جائے ،سیاست میں کل ایساہی کچھ ہو تا رہاہے اور آج بھی سیاست پرانی راہوں پر گامزن ہے۔ہماری سیاسی قیادت نے ماضی سے سبق نہ لینے کی قسم کھارکھی ہے ،ہر بار پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ،ایک دوسرکو گرانے اور دیوار سے لگانے کیلئے تمام تر حربے استعمال کیے جارہے ہیں،سیاسی مخالفین پر ناجائز مقدمات بنا کر ان پر تشدت کیاجارہا ہے

، سیاست سے لے کر صحافت تک میں اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،اس نوع کا سلوک مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی سے وابستہ کچھ شخصیات کے ساتھ بھی روا رکھاگیا تھا ،لیکن اس رویات کو دہرانے سے نفرتیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی جارہی ہیں ، اگرایوانوں میں بیٹھنے والے بائیس کروڑ عوام کی ترجمان انتقامی سیاست پر ہی گامزن رہیں گے تو اس ملک وقوم کے متعلق کون سو چے گا؟
سیاسی قیادت کے سیاسی جھگڑوں نے پورے سماج کو ہی تقسیم کر کے رکھ دیا ہے،ایک ایسا ملک جسے قومی سلامتی سے متعلق بہت سے چیلنج درپیش ہوں‘ خطے میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوں اور دنیا نئے اتحاد بنا رہی ہو تو اس کی توانائی کا داخلی جھگڑوں پر خرچ ہونا ملک کی کمزوری کا باعث بنتا ہے،سیاسی قیادت کوذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر بدلتی صورتحال کا ادراک کرنا چاہئے ،تاہم کئی بار ایسا ہوتا ہے

کہ کسی وجہ سے شخصیات کا تنازع اداروں پر الزامات کی شکل اختیار کر جاتا ہے ،اس حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا بجا ہے کہ اداروں کی بجائے غلطی کرنے والے فرد پر تنقید کا رویہ اپنانا چاہیے،کیو نکہ سماج کو منظم اور ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لئے ادارے ہی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے ان اداروں سے وابستہ کوئی فرد واحد یا پھر سیاستدان جب اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کرتا ہے

تو اس سے سماج میں انتشار کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔پا کستانی آئین میں اداروں کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے ،ادارے بھی چاہتے ہیں کہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کر دار ادا کرتے رہیں ،لیکن سیاسی قیادت مداخلت پر مجبور کرتے آرہے ہیں ،تاہم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز قبل اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج سیاسی معاملات سے دور رہے گی ، عوام بھی یہی چاہتے ہیں

کہ سیاسی قیادت اپنے باہمی تنازعات خود طے کرے،سیاسی جماعت کو جب بھی حکومت ملتی ہے تو وہ سیاسی و جمہوری اقدار کی ترویج کی بجائے انتظامی طاقت کو اپنے مخالفین کے خلاف بروئے کار لانے کی کوشش کرتی ہے،ملک کی سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ،لیکن اس کے باوجود حکمران قیادت اپنا طرز عمل بدلنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ۔اتحادی قیادت نے اقتدار میں آنے کے بعدسے جو اقدامات شروع کررکھے ہیں،

وہ افہام و تفہیم کے بجائے تصادم کی طرف ہی لے کر جاتے ہیں،جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی قیادت اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے اس قدر غصے میں ہے کہ سیاسی مکالمہ کی طرف مائل ہی نہیں ہو رہی ہے ،گزشتہ دنوں مکالمہ کی پس پردہ کچھ کوششیں ضرورہوئی تھیں، جنہیں پی ٹی آئی رہنمائوں کی گرفتاریوں اور مقدمات نے غیر موثر کر دیا ہے، ایک بار پھر الزام تراشی اور انتقامی سیاست میں محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے اور اس کے خاتمے کیلئے کوئی تدبیر کار گر ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،کیو نکہ سیاسی قیادت سے لے کر ادارتی قیادت تک سب ہی اپنی انا کے دئیروں سے نکلنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے ملک میں بدلے کی سیاست کا ایک ایسا روایتی انداز ہے کہ جس نے ملک کو ایسے سیاسی بحران میں داخل کردیا ہے کہ جہاں سے باآسانی نکلنا انتہائی مشکل نظر آرہا ہے،یہ بدلے کی سیاست کے ناخوشگوار گوشے آخر کب تک بھولے عوام کو مبتلائے فکر رکھیں گے،عوام نہ جانے اور کتنے عشروں تک سیاسی بھول بھلیوں جیسی پچیدگیوں سے نبرد آزما رہیں گے،

اس بدلے کی سیاست کو اب ختم ہو جانا چاہیے،لیکن اس روش کو بدلنے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں ہے ، اس انتقامی سیاست کا خاتمہ کون کرے گا،کیا ملک اور عوام کے بھی اچھے دن آئیں گے اور کوئی ان کی بہتری کا بھی سوچے گا؟ اس عوامی سوچ کی اتحادی قیادت سے توقع کرنا، خود کو دھوکہ دینے کے ہی مترادف ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں