ارشد شریف کا قتل ایک پیغام ہے !
دنیا بھر میں صحافت کرنا کوئی آسان کام نہیں رہا ہے ،ایک صحافی کو انتہائی خطرات میں اپنا کام کرنا پڑرہا ہے ،پا کستان میں دیگر ممالک کی نسبت صحافی برادری کیلئے حالات زیادہ تشویش ناک ہیں ، آئے روز صحافیوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں تو کبھی تشدت کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،اس خوف و ہراساں کے ماحول کے باوجود صحافی برادری بڑی دلیری سے اپنی ذمہ داریاں اداکررہے ہیں ،مگر ایک بڑی تعداد ایسے صحافیوں کی ہے کہ جن کیلئے ایسے حالات پیدا کردیئے جاتے ہیںکہ انہیں اپناملک ہی چھوڑ نا پڑتاہے
،سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کا شمار بھی ایسے ہی چندصحافیوں میں ہوتا ہے کہ جنہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ، ارشد شریف نہ چاہتے ہوئے بھی ملک چھوڑ کر چلے گئے ، لیکن گزشتہ روز ان کی واپسی ہوئی ہے ،وہ اپنے قدموں پر چلتے ہوئے گئے تھے ،لیکن واپسی تابوت میں ہوئی ہے ۔
اس ملک میں رہتے ہوئے ارشد شریف نے ہمیشہ نڈر اور بے باک صحافی ہونے کا ثبوت دیا اور کبھی کسی دھمکی سے مرغوب ہوئے نہ انہیں کوئی خو ف زدہ کر سکا ،لیکن انہیںملک چھوڑنے پر مجبور ضرور کر دیا گیاتھا،ارشد شریف نہ چاہتے ہوئے دوبئی چلے گئے ،لیکن انہیںوہاں بھی سکون سے نہ رہنے دیا گیا ،انہیں کینیا جانا پڑا ،جہاں موت ان کاانتظار کررہی تھی ،ارشد شریف کینیا کے شہرنیروبی کے قریب گولی لگنے سے شہید ہو گئے
،نیروبی پولیس کے مطابق ارشد شریف کا قتل غلط فہمی کا نتیجہ ہے، مقتول کی گاڑی کے ڈرائیور نے ناکے پر گاڑی نہ روکنے کی غلطی کردی اور یہ غلطی ارشد شریف کیلئے جان لیوا حادثے کا سبب بن گئی ہے،تاہم کینیا کے صحافتی حلقے وقوعے کا جائزہ لینے کے بعد جو سوالات اٰٹھارہے ہیں ،اس سے پولیس کے بیان پر شبہات ظاہر ہوتے ہیں ،اس کے ازالے کیلئے وقوعے کی جامع تفتیش انتہائی ضروری ہو گئی ہے ۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ ہماری حکومت نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے ،اس میں سول سوسائٹی کے ساتھ صحافتی تنظیموں کے نمائندگان کو بھی شامل کیا جائے گا ،پا ک فوج کی جانب سے بھی افسوس ناک واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ یہ تحقیقات ان حالات ہی کی نہیں ہو نی چاہئیں
کہ وہاں کیا ہو ا ،بلکہ ان حالات کی بھی ہو نی چاہئے کہ ارشد شریف کو یہاں سے کیوں جانا پڑا اور کس نے انہیں جانے پر مجبور کیا ہے ؟یہ سبھی نکات کیس کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی جامع تحقیقات سے ہی اصل صورتحال سامنے آسکتی ہے ،جو کہ اس دلخراش واقعے کا مین سبب بنی ہے۔
اس دلخراش واقعے پر وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان تو کر دیا ہے ،مگر اس حوالے سے ہمارا ریکارڈ انتہائی خراب رہا ہے ،اس ملک میں پہلے بھی متعدد تحقیقاتی کمیشن بنائے جاتے رہے ہیں ،اس کے نتیجے میں کوئی مجرم پکڑے گئے نہ کسی کوسزا ہوئی ہے،اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک بھی پہنچ نہیں پاتے ہیں، اس ملک میںکئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے سب نے دیکھی ہیں،
ارشد پہلا صحافی شہید ہوا نہ آخری ہو گا،کیو نکہ یہاں ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور بات کسی ایک قتل پر رکتی بھی نہیں ہے، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا کہ جہاں صحافت او رصحافی انتہائی خطرات سے دوچار ہے ،اس سے واقعے سے قبل ملک کے اندر صحافی غیر محفوظ سمجھے جاتے تھے،مگر اب تو بیرون ملک بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔
ہماری ریاست اور حکومت کے لئے لازم ہے کہ اپنے وسائل اور سفارتی تعلقات کو پرخلوص بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے شفاف تحقیقات کرائے ،ہمارے ہاںصحافیوں کے تحفظ کے نام پرکئی عالمی تنظیمیں بھی متحرک ہیںکہ جن میں سے چند کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، حکومت کوایسی کسی تنظیم کی نشاندہی کے بعد اس سے درخواست نہیں کرنی چاہیے کہ ارشد شریف کی پْراسرار حالات میں ہلاکت کی صاف وشفاف تحقیقات کی نگرانی کے عمل میں شریک ہوجائے، اس واقعے کی صاف،شفاف اور قابل اعتبار تحقیقات کے بغیرہمارے لوگوں کی اکثریت ارشد شریف کی المناک موت کے بارے میں وہی سوچے گی،
جو کہ اس وقت ان کے دلوں اور ذہنوں پرحاوی ہے ، اس قت سب ہی شک شبے میں جی رہے ہیں اور کوئی بھی خود کومحفوظ تصور نہیں کررہا ہے ، ارشد شریف کی المناک موت کی صاف،شفاف اور قابل اعتبار تحقیقات جہاںافواہ سازی اورسازشی کہانیوں کا اصل تدارک ثابت ہوسکتی ہیں،وہیں عدم تحفظ کے شکار لوگوں کیلئے تحفظ کے احساس کاباعث بھی بن سکتی ہے