ہم ایک بڑے سانحہ سے بچ گئے ہیں !
،وہیں ان خدشات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتیں ملک و قوم میں انتشار پھلا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔یہ امر خوش آئند ہے کہ اتحادی قیادت کے ساتھ آئی ایس پی آر نے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے،تاہم اس زبانی کلامی مذمت کے ساتھ عملی طور پر عمران خان جیسے قد کاٹھ کے لیڈر کی سیکورٹی پر مامور لوگوں کی گرفت ہونی چاہیے،بلکہ اس واقعہ کی صاف وشفاف انداز سے تحقیقات بھی ہو نی چاہئے ،وفاقی حکومت تحقیقات کے حوالے سے تعاون کی پیش کش کررہی ہے
،لیکن اس واقعے کی اصل ذمہ داری بہر صورت صوبائی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے ،وزیر اعلی پنجاب پرویز الہیٰ نے ہسپتال میں عمران خان کی عیادت کے بعد خدا کا شکر ادا کیا ہے کہ دشمن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا ،لیکن یہ تشکر کے کلمات بطور وزیر اعلیٰ انہیں ذاتی طور پر ان کے زیر انتظام کام کرنے والی پنجاب حکومت کو سیکورٹی میں ناکامی کی بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران قاتلانہ حملہ صوبائی حکومت کی ناکامی ہے ،وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور سے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے ،لیکن یہ ایک روٹین کی کارروائی ہے، وزیر اعلی پنجاب پرویز الہیٰ محض اس واقعہ کی تفصیلات فراہم کر کے سرخرو نہیں ہوسکتے، بلکہ انہیں بتانا چاہیے کہ ان کی انتظامیہ نے جو سیکورٹی پلان بنایا تھا، وہ کیسے ناکام ہوا ہے
،کیا پنجاب حکومت نے لانگ مارچ کی سیکورٹی کو سنجیدگی سے لیا تھا کہ اس زعم میں ہی رہے کہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر پر کوئی حملہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا ہے، پنجاب انتظامیہ روایتی سست روی کا شکار ہوئی، بلکہ انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کیا ہے ،اس لیے یہ بات بھی سامنے آنی چاہیے کہ کہ پی ٹی آئی اور پنجاب حکومت کے درمیان لانگ مارچ کی سیکورٹی اور عمران خان کی حفاظت کے حوالے سے کوئی موثر اور قابل عمل رابطہ موجود تھا یا عدم ربط کی وجہ سے سانحہ رونما ہوا ہے۔
یہ انتہائی حیران کن امر ہے کہ تھریٹ الرٹ ہو نے کے باوجود ایک افسوس ناک واقعی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہا ہے ،جبکہ پنجاب میں تحریک انصاف اپنے اتحادی کے ہمراہ بر سر اقتدار ہے ، اس واقعہ کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت کاا متحان ہے کہ وہ جامع تحقیقات کرے اور ماضی کی رویات کے برعکس تفصیلی رپورٹ عوام کے سامنے لائے،تاکہ حقائق سب کے سامنے واضح ہو جائیں کہ اس واقعے کے پیچھے درحقیقت کون کار فرما رہا ہے
، تاہم اس سے قبل ہی تحریک انصاف رہنما اسد عمر نے عمران خان سے ملاقات کے بعد ایک بیان دیاہے ،اس میں شبہ ظاہر کیا جارہاہے کہ اس حملہ میں وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک فوجی افسر شامل ہیں، تحریک انصاف قیادت کی جانب سے واقعاتی تفصیلات سامنے آنے سے پہلے ہی ملکی حکومتی شخصیات اور سینئیر فوجی افسر پر الزامات لگانا درست نہیں ہے ،اس سے ملک میں انتشار کم ہو نے کے بجائے مزید بڑھے گا۔بلا شبہ تحریک انصاف قیادت پر قاتلانہ حملہ انتہائی افسوس ناک ہے
، یہ ملک سب کا ہے اور اس کے مسائل کا ادراک بھی سبھی رکھتے ہیں تو پھر مل بیٹھ کر انہیں حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں ،اگر سیاست برائے حصول اقتدار ہی بنے رہے گی تو پھر خود غرضی ایسے ہی تصادم کی فضا قائم کرے گی اور ایسے ہی سانحات رونما ہوتے رہیں گے ،جیسا کہ آجکل ہو رہے ہیں،ملک ایک بڑے سانحہ سے تو بچ گیا، لیکن شائد آنے والے سانحہ سے بچ نہیں پائے گا۔