35

تاب دان اور کتابوں کا دور

تاب دان اور کتابوں کا دور

شہزادافق

نوید ملک کا نام موجودہ دور کے ان شعراء کی فہرست میں شامل ہے جو روانی کے ساتھ ادبی سفر میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔آپ منفرد شناخت کے حامل غزل گو اور نظم گو شاعر ہیں۔تاب دان آپ کا دوسرا غزلیہ مجموعہ ہے۔اس سے پہلے طویل نظم منقوش، نظمیہ مجموعہ ”کامنی” اور غزلیہ مجموعہ ”اک سفر اندھیرے میں”

منظر عام پر آ چکے ہیں اور پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔نوید ملک سے میری ملاقات 2000 میں ہوئی اور پھر تعلقات کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ قائم ہو گیا۔تاب دان کی شاعری اور آپ کی شخصیت میں مجھے کہیں تضاد نظر نہیں آیا۔مثال کے طور پر ایک جگہ آپ کہتے ہیں:
ہمارے عکس کی فصلیں انھیں سے پھیلیں گی جو آئنے تری دنیا میں ہم اگا کے چلےیہ شعر ان کے شعری رحجان کی انفرایت کی اعلیٰ مثال ہے۔آپ اپنی شناخت قائم رکھنے کے لیے شاعری کو کڑے معیار سے گزارتے ہیں۔کچھ ایسا کرنے کی خواہش جو کسی نے نہ کیا ہو، آپ کو ہمیشہ بے چین رکھتی ہے۔شعر دیکھیے:
کیوں خواب میں کہتا ہے مجھے روز ستاراخواہش ہے ضیِاء کی تو ہمک اور طرف سےمجھے اس کتاب کا کوئی شعر بھی فالتو نظر نہیں آیا؛حالانکہ کئی مجموعوں میں اس بات کا احساس رہتا ہے کہ اگر غزل سے اس شعر کو نکال دیا جاتا تو بہتر تھا۔

شعر دیکھیے:
ہم پرندوں کو غلیلوں سے ڈرائے نہ جہاں
مر تو جائیں گے مگر شاخ سے جانے کے نہیں
خواہشیں روند بھی سکتا ہوں کسی رستے میں
بوجھ ہوتے ہیں مگر سارے اُٹھانے کے نہیں

خیال کی بلند پروازی کے ساتھ ساتھ آپ کی شاعری میں خود داری نظر آتی ہے۔آپ موضوعات کے چناؤ میں انتہا کی احتیاط کرتے ہیں۔آپ کی شاعری اندرونی احساسات کو نہ صرف جگاتی ہے بلکہ خیالات کے نئے در بھی کھولتی ہے۔آپ کی شاعری میں نہ صرف اپنے دور کی بات ہے بلکہ آپ ماضی کے ساتھ ساتھ مستقبل کی تصویریں بھی دکھاتے ہیں۔اسی لیے آپ کہتے ہیں:

تجھے صداؤں کے چشمے دکھانا چاہتا ہوں
میں سارے شہر میں اب خامشی بچھا دوں گا

خامشی بچھانے کے بعد صداؤں کے دکھانے کا تصور شاید ہی کسی اور کی شاعری میں نظر آئے۔ہر شاعر کے تخلیقات میں مخصوص ماحول ہوتا ہے اور یہ ماحول اس کے تخیل سے پیدا ہوتا ہے۔تاب دان کی شاعری ہر پڑھنے والے کو الگ ماحول میں لے جاتی ہے۔عمومی طور پر وحشت اور صحرا کا تعلق شاعری میں جگہ جگہ نظر آتا ہے مگر نوید ملک نے اس سے بھی انحراف کیا اور کہا:
وحشت پکارتا ہوا آیا ہر ایک شخص باندھا ہوا ہے دشت میں ہم نے سماں الگ

اگر اسی شعر کی پرتیں ہم عہدِ جدید کے حوالے سیکھولیں تو تحقیق و جستجو کی کئی راہیں استوار ہوتی ہیں۔نوید ملک نظم بھی کہتے ہیں مگر جب غزل کے میدان میں اپنا ہنر آزماتے ہیں تو قارئین کو تحیر میں مبتلا کرتے ہیں، اشعار دیکھیے:
صحیفہ منفرد ہے ہر نگہ کا
ہر انساں اپنی آیت مانتا ہے
مجھیسُن کے لفظ ہوں میں،نہ دکھائی دوں گا تجھ کو
مجھے توبتا دے اتنا، کہ مٹا تھا میں کہاں سے
کوزہ گر چاک گھماتے ہوئے یہ بھی تو بتا
حوصلے کون سی چکّی میں کدھر بنتے ہیں
میں تمام قارئین کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس کتاب کو خرید کر ضرور پڑھیں۔لوگ کہتے ہیں کہ کتابوں کا دور ختم ہونے والا ہے مگر یقین کریں، ایسی شاعری جب تک زندہ ہے، کتابوں کا دور بھی زندہ ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں