تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ میںجس دن سے افسوسناک واقعہ ہوا ہے، اس دن سے لے کر آج تک بس 39

ہم ہی نہیںزمانہ کہہ رہا ہے !

ہم ہی نہیںزمانہ کہہ رہا ہے !

اس وقت ملک کو گہرے انتشار سے اُٹھتی بے یقینی کی لہروں نے پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،ہر طرف ایک ایسی بے یقینی اور افراتفری ہے کہ جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا ہے ،سیاست کاکوئی فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار ہے نہ معاملات سلجھانے کی کوشش کی جارہی ہے ، اپنے گندے کپڑے جو گھر کے اندر دھونے چاہئیں، وہ بیچ چوراہے دھوئے جا رہے ہیں، دنیا ہمارا تماشہ دیکھ رہی ہے،

ایک ایٹمی ملک کا مذاق اڑایا جارہا ہے، دشمن کے ہاںشادیانے بج رہے ہیں اور ہم کھیلیں گے نہ ہی کھیلنے دیں گے کی ضد لگائے بیٹھے ہی،جبکہ ہر پاکستانی جو کچھ اپنے گردو پیش میں دیکھ اور سن رہا ہے، اس کی وجہ سے خوف کا شکار ہے،ایک بے بسی کا عالم ساری عوام پر طاری ہے اورعوام گنگ ہو کر اپنے رہنماؤں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ملک کے سیاسی حالات روز بروز بہتر ہو نے کے بجائے ابتر ہوتے جارہے ہیں،

سیاسی اختلافات دشمنیوں میں بدل رہے ہیں، سیاسی قیادت ایک دوسرے سے بات کرنے کو تیار ہے نہ ایک دوسرے کوبرداشت کیا جارہاہے ، ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں اداروں پر بھی تنقید کی جارہی ہے ،مقتدر حللقوں کی جانب سے متعدد بار غیر جانبدار رہنے کی یقین دہانیوں کے باوجود مارشل لا ء کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے

،پی ٹی آئی قیادت کے لانگ مارچ کے دوبارہ اعلان کے ساتھ ہی حکمران جماعت کے رہنماء اسے مارشل لا کی سازش قرار دینے لگے ہیں،لیکن اپنے سیاسی معاملات سیاسی انداز میں حل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی محاذ آرائی میں انتشار بڑھتا ہی جارہا ہے ،یہ وقت آپس میں دست گریباں ہو نے کا نہیں ،مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کا ہے ،اختلافات اپنی جگہ ،اختلافات کی بنیاد پر میدان میں آنے میں کو ئی قباحت نہیں ،بہت کچھ ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہئے ،مگر بات جب ملک کی آجائے تو پھر ایسا ویسا کچھ نہیں ہو نا چاہئے

،سیاسی قوتیں آپس کی لڑائی سے فارغ ہوں تو ملک و قوم کیلئے سوچنے پر مائل ہوں ،یہاں تو کوئی معمولی مفادات سے دست برداری کیلئے بھی تیار نہیں ہے ،قومی وسائل کی بندر بانٹ میں جس کے ہاتھ جو لگ رہا ہے ،وہ لے بھاگ رہا ہے ،قوم ٹیکس ادا کرتے اور قربانیاں دیتے تھک چکی ہے ،مگر ہمارے سٹیک ہو لڈر ہیں کہ ان کی نیت اور پیٹ دونوں ہی بھر نہیں رہے ہیں۔سیاسی قیادت کو اپنے روئیوں میں تبدیلی لانا ہو گی

،سیاست میں برداشت کے کلچر کو اپنانا ہوگا، سیاسی انتہا پسندی نے ملک کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے، سیاسی انارکی اور سیاستدانوں کی ایک دوسرے پرالزام تراشیاں خوفناک شکل اختیا ر کرتی جارہی ہیں، مصالحت اور حالات کی بہتری کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں،جو کہ ملک و جمہوریت کے مفاد میں بہترنہیں ہیں،وقت تیزی سے گزرتا جارہا ہے ،لیکن ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے

،اتحادی حکومت اور تحریک انصاف قیادت حالات کو بہتری کی جانب موڑ سکتے ہیں،آئین،وجمہوریت کی حفاطت کی خاطر سیاسی مکالمے کے ذریعے حالات ٹھنڈے کر سکتے ہیں، ورنہ سیاست دانوں کی چپقلش کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔سیاسی قیادت کی تر جیحات میں کبھی عوام نہیں رہے ہیں ،لیکن اس وقت بات عوام تک محدود نہیں رہی ہے ،اگر سیاستدانوں نے اپنی انا کی دیوار نہ گرائی تو خطرہ پیدا ہوگیا ہے

کہ خدانخواستہ ملک میں جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے گی ،اس لیے بات چیت اور افہام تفہیم کے ذریعے ہی ملک کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، سیاست میں مزید تشدد کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتا، تخریب کار عناصر اول روز سے پاکستان کو نقصان پہچانے اور پاکستان کو ایک ناکام
ریاست بنانے کے در پے ہے، ایسے میں سیاسی قائدین کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی اشد ضرورت ہے، ذرا سی کوتاہی بھی سنگین غلطی ثابت ہوسکتی ،ملک میں سیاسی خلفشارکے باعث تین مرتبہ مارشل لا لگ چکا ہے اور تمام لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں، سیاست دانوں کی غلطیاں اور انا ہمیشہ تیسری قوت کو موقع فراہم کرتی رہی ہیں ،ایک بار پھر موقع فراہم کیا جارہا ہے

،لیکن ابھی وقت ہے کہ نئی صفت بندی کی جائے اور ملک کو سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کیلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے ،باہمی مذاکرات سے معاملات کے حل سے ہی ر تیسری قوت کا راستہ روکا جاسکتا ہے ، ورنہ بدلتے حالات بتا رہے ہیں کہ دم قدموں کی چاپ صاف سنائی دیے رہی ہے ،یہ بات صرف ہم نہیں ،سارا زمانہ کہہ رہا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں