کوئی بحران ابھی ٹلا نہیں !
ملک میں بڑھتے سیاسی انتشار کے باعث معیشت بھی مسلسل المناکیوں سے دوچار ہے ،دنیاں ہمیں جگانے کی کوشش کررہی ہے ،مگر ہمارا احساس ذمہ داری بیدار ہی نہیں ہورہا ہے ،ایک طرف اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل بار ہا کہہ چکے ہیں کہ پا کستان شدید مشکلات کا شکار ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف اور عالمی بینک انتباہ کررہا ہے
کہ پا کستانی معیشت شدید کرابیوں سے دوچار ہے ،یہ خرابیاں اسی وقت دور ہو سکتی ہیں کہ جب خامیاں دور کی جائیں اور چند ضرور اصلاحات یقینی بنائی جائیں ،معاشی اصلاحات یقینی بنانے کیلئے سیاسی عزم لازم ہے ، سیاسی عزم کہاں سے آئے گا ،اس ملک میں جن کے ہاتھوں میں اختیارات و وسائل ہیں ،وہ تو اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں ۔ہماری موجودہ قومی حالت سخت باعثِ تشویش ہے ،
محبِ وطن سمجھ دار لوگ آئندہ آنے والے خطرات سے بے حد خائف ہیںاور حکمرانوں کو آگاہ بھی کررہے ہیں،لیکن ہماری قیادت نے برس ہا برس سے اپنے اصل مسائل سے چشم پوشی کرتی رہی ہے اور ہر سطح پر عوام کو ہی بے وقوف بنایاہے،ملک کل بھی سیاسی ومعاشی بد حالی کاشکار تھا ،ملک آج بھی قر ضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے ، جبکہ حکمران قیادت ملک کو معاشی بد حالی سے بچانے کی دعویدار بنی ہوئی ہے
،ہمارے بیرونی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور حکمرانوں کی ااہل روش کے باعث مزید بڑھتے جائیں گے،سابقہ اور موجودہ حکومت نے کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ جس سے قرضے اتر جائیں نہ کوئی ایسی تدابیر پر عمل پراں ہے کہ جس سے کسی حد تک کم ہو جائیں،الٹا مزید قر ضوں کے حصول کیلئے جدوجہد کی جارہی ہے۔ہمارے بیرونی کے ساتھ اندرونی قرضے بھی تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں،
لیکن ا ن قرضوںکو کم کرنے کی کوئی بہتر پالیسی نظر نہیں آرہی ہے ،قرضوں کو خاطر خواہ حدتک کم کرنے کیلئے برآمدات بڑھنا ضروری ہیں ،مگر ہماری برامدات کے بجائے در آمدات بڑھتی جا رہی ہیں ، ہماری کوئی پالیسی ایسی نہیں کہ جس سے خود کفالت کی راہ پر گامزن ہو ا جاسکے، ہماری صنعت و زراعت ترقی کرے ، ہم سمجھتے رہے ہیں کہ محض سبسڈی اور ٹیکسوں کی چھوٹ اور اسی قسم کی کچھ دوسری رعایتوں سے ہماری صنعتی اور زرعی ترقی ہو جائے گی، جب کہ دنیا میں مقابلہ بہت بڑھ گیا ہے
تو ہماری چھوٹی بڑی صنعتیں بند ہونا شروع ہو گئی ہیں ،اس صورتحال میں ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہا ہے ،کچھ دوسرے ملک بھی ہمارے سامنے دیوالیہ ہوئے ہیں، تاہم انہیں ان کے دوستوں نے اپنا ’خون‘ دے کر بچالیا ،لیکن ہمیںبْرے وقت میں کوئی خون تو کیا، پانی دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہو گا،اس کے باوجود بے وقوفوں کی طرح امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ہمیں بچا لیا جائے گا۔
ہمیں کو ئی بچانے نہیں آئے گا ،ہمیں خود ہی کچھ کر نا ہو گا ،لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک کے حقیقی مسائل حکمرانوں کی تر جحات میں شامل ہی نہیں ہیں،یہاں پر نعروں اودعوں کے زور پر معاشی کایا پلٹنے کے کواب دیکھے اور دکھائے جاتے ہیں،جبکہ دنیا میں نعرے اور دعوئے نہیں چلتے ،سنجیدگی سے اقدامات کیے جاتے ہیں ،ہمارے جیسے ترقی پزیر ممالک کو معاشی استحکام کی منزل حاصل کرنے کیلئے بہتر پالیسیوں کے ساتھ تسلسل کی ضرورت ہے ،مگر ہم یہ بھی نہیں کرپارہے ہیں ،
ہماری سیاسی جماعتیں اپنے دور اقتدار میں قومی مفادات کا خیال رکھنے کے بجائے اپنے مفادات کا زیادہ خیال رکھتی ہیں ،ایسے حالات میں معیشت کی پائیداری اور استحکام کی ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے ،اس رویئے سے جب تک تائب نہیں ہوا جائے گا اور اس خطے کے ترقیافتہ ممالک سے جب تک کچھ سیکھا نہیں جائے گا ،ہماری برآمدات ،سرمایہ کاری اور قومی آمدن میں اضافہ ممکن نہیں ہے ۔
اس وقت ملک انتہائی مشکل حالات سے گزررہا ہے ، سیاسی ومعاشی بحران ابھی تک ٹلا نہیں ہے ، اگرسیاسی قیادت ذاتیات سے نکل کر جمہوری اصولوں کو اپنائے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے متفق ہو جائے تو پاکستان ایک دو برس میں ہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑا سکتا ہے،ملک میں گھیراؤ جلاؤ کی سیاست انتشار کے سوا کچھ نہیں دے گی‘
پاکستان کو معیشت کو بہتر بنانے اور ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور امن و امان کی اشد ضرورت ہے ، ہمارے پاس وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے ، ہمیںبہت سرعت سے اپنے روئیوں کے ساتھ اپنی تمام بنیادی پالیسیوں کو بدلنا ہو گا، ورنہ ہمارا انجام بھی وہی ہو گا ،جو کہ اْن بستیوں کا ہوا کہ جن کی تباہی کی داستانیں تاریخ عالم میں رقم ہیں۔