سیاسی دنگل کے خا موش تماشائی!
پاکستان میں جمہوریت پسند طبقات اور سیاسی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ پارلیمان کی بالاستی کو ہمشیہ سے چیلنجز درپیش رہے ہیں،اس کے باوجودسیاسی جماعتیں زور دیتی آئی ہیں کہ مسائل کا حل پارلیمنٹ میں ہی بحث و مباحثے سے تلاش کرنا چاہیے ،لیکن سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ملک میںجب بھی کوئی بڑا سیاسی مسئلہ یا بحران سر اٹھاتا ہے تو پارلیمان کے اندر موجود سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے بجائے سڑکوں یا عدالتوں کا رخ کرتی ہیں ،تاہم اس کا خمیازہ بھی انہیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ عوام کے منتخب نمائندگان کو پارلیمان جانے اور پا رلیمان میں پہنچ کرعوام کی نمائندگی کرنے کا شوق بہت ہو تا ہے ،وہ آئین و پا رلیمان کی بالادستی اور تقدس کی باتیں بھی بہت کرتے ہیں ،لیکن ار کان پا رلیمان بننے کے بعد آئین وپارلیمان کو خود ہی نظر انداز کرنے لگتے ہیں، سیاسی قیادت کو آئین اور پارلیمان اسی وقت پھر زیادہ یاد آتی ہے کہ جب خود خطرے میں ہوتے ہیں یا ان کے اقتدار کو خطرات لا حق ہو تے ہیں
تو آئین و پارلیمان کی دھائی دی جاتی ہے ،پا رلیمانی معاملات کو پارلیمانی انداز میں پارلیمان میںسلجھانے کی یاد ہانی کرائی جاتی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ پا رلیمان کا کوئی متبادل فورم نہیں ،پارلیمان فعال ہو گی تو ہی جمہوریت چل سکے گی ،مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سیاسی قیادت ساری یادہانیوں کے باوجودپارلیمان کاراستہ اختیارکرنے پر آمادہ نہیںہے ،سیاسی رہنمائوں کی جانب سے گاہے بگاہے
مل بیٹھ کر مسائل کا حل ڈھو نڈنے کا ذکر ضرور سنائی دیتا ہے ،پس پر مذاکرات کی افواہیں بھی گردش کرتی رہتی ہیں ،مگر ان کے کوئی عملی مثبت نتائج سامنے آنے کے بجائے مذید اختلافات بڑھتے ہی جارہے ہیں ،سیاسی جماعتوں میں اصلولی اختلاف کو رد نہیں کیا جاسکتا ،لیکن اس کا حل مکالمے او ر مبا حثے سے نکلاجاتا ہے ،اس کا سب سے موثر دستیاب فورم پارلیمنٹ ہے ،لیکن اس آئینی اور عوامی فورم کا استعمال کرنے کے بجائے فیصلہ سازی کہیں اور ہی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس وقت چار سو سیاسی بے یقینی کاراج ہے ،اس کے لا محلہ اثرات ملکی معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں ،ایک طرف محاذ آرائی کی سیاست نے معیشت اور معاشرت کا تیا پانچا کردیا ہے تو دوسری جانب سات ماہ گرنے کے باوجود اتحادی حکومت کے سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ،حکومت کی ساری توجہ خود کے ساتھ اقتدار بچانے پر ٖصرف ہورہی ہے ،اتحادی گٹھ جوڑ حکومت میں یہی کچھ ہوتا ہے
،فریقین کے مفادات آپس میں اتنے ٹکراتے ہیں کہ لاکھ کوشش کے باوجودمثبت اور تعمیری انداز میں کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا ،ہر ایک کا زور جب اپنے اپنے مفادات کے تحفظ پر ہوگا تو ایسے میں عوام کیلئے سوچنے کی فر صت کسے ملتی ہے ،اس لیے ملک وعوام کا کوئی پر سان حال ہے نہ ملک وعوام کی کوئی فکر کررہا ہے ،اتحادی اور پی ٹی آئی قیادت ایک دوسرے کو گرانے اور دیوارسے لگانے میں سب کچھ ہی دائو پر لگا رہے ہیں۔
بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین بلیم گیم انتہا درجے تک جاپہنچی ہے ،اس میں زیادہ حکومت کے غیرمفاہمانہ اور سخت رویے کا بھی عمل دخل ہے، کیونکہ جب اپوزیشن قائدین کو تسلسل کے ساتھ انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا جائے گا ،ان پر جھوٹے مقدمات بنا کر تشددت کیا جائے گا اور انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جائے گا تو اسکے ردعمل میں وہ بھی حکومت کیخلاف تلخ لہجہ ہی اختیار کرینگے
، اس حوالے سے آج سیاسی تلخیاں ذاتی دشمنیوں کا تاثر دیتی نظر آرہی ہیں ،اگراس کا تسلسل ایسے ہی برقرار رہا تو اس کا نقصان دونوں فریقین کے علاوہ ملک اور عوام کو بھی اٹھانا پڑیگا اور جمہوریت کی گاڑی ٹریک سے اتر سکتی ہے ،اگر اس بار جمہوریت کی گا ڑی ٹریک سے اُتر گئی تو اسے واپس ٹریک پر لانے کیلئے شاید پہلے سے بھی کٹھن اور طویل جدوجہد کرنا پڑے گی ،اس لئے بہتر ہے کہ اسکی نوبت ہی نہ آنے دی جائے ،لیکن سیاسی قیادت بدلتے حالات کا ادراک کیے بغیر مارو مرجائو کے خطرناک راستے پر گامزن ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت ایک انتہائی خطرناک اور تشویشناک صورتحال بنتی جارہی ہے ،ایک طرف بڑھتی سیاسی محاذ آرائی کے باعث ملک میں معاشی بحران بڑھتا جارہا ہے تو دوسری جانب پارلیمان بھی غیر فعال نظر آنے لگی ہے ،اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ان سارے مسائل کا کوئی صائب حل تلاش کیا جائے ،یہ وقت نیو ٹرل ہونے کا ہے نہ خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہنے کا ہے
،اس وقت ملک کی سیاسی قیادت اور مقتدر حلقوں کو مل بیٹھ کر سو چناہو گا کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہو سکتا ہے اورملک کو در پیش بحران در بحران سے کس طرح نکلا جاسکتا ہے ، اس کا فوری حل عام انتخابات میں ہی دیکھائی دیتا ہے ،لیکن اتحادی حکومت ہار کے ڈر سے انتخابات کروانے کیلئے تیار ہے
نہ پی ٹی آئی قیادت فوری انتخابات کے مطالبے سے دست بردار ہونے کیلئے تیار ہے ، اس سیاسی دنگل میں نقصان ملک عوام کا ہو رہا ہے، سیاسی اکھاڑے میں ہونے والی سیاسی کشتی کو مقتدر حلقے خاموش تماشائی بنے کب تک دیکھتے رہیں گے!