Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

سیاسی تنائو کی چھٹتی دھند !

ملک میں حقیقی آزادی کی گونج بڑی شدت سے سنائی دیے رہی ہے ، تحریک انصاف قیادت ایک طرف

سیاسی تنائو کی چھٹتی دھند !

پاکستان سیاسی عدم استحکام سے بڑھ کر سیاسی ٹکراؤ کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے، پاکستانیوں کے لیے موجودہ سیاسی حالات تشویش کا باعث ہیں، آئینی اور قانونی معاملات میں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ہے ،حکومت نے سینیارٹی لسٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو چیف آرمی سٹاف جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کوچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی (سی جے ایس سی) تعینات کر کے ایڈوائس صدر عارف علوی کو بھجوا ئی توصدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے لاہور میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات کی اور اْس کے بعد اسلام آباد روانہ ہو گئے،

جہاں پہنچتے ہی بنا وقت ضائع کیے اپنی آئینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے وزیراعظم کی ایڈوائس پر دستخط کر کے ہر طرح کی قیاس آرائیوں کو دفن کر دیااور اب لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آرمی چیف جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو سی جے ایس سی مقرر کر دیا گیا ہے ،اس اہم تعیناتیوں کے بعداُمید کی جارہی ہے

کہ جو سیاسی تنائو کی دھند ملک کے سیاسی ،معاشی اور سماجی منظر نامے پر چھائی ہوئی تھی ،وہ اب بہت جلد چھٹنا شروع ہو جائے گی ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ جس معاملے پر کچھ عرصے سے بہت سی افواہیں اڑائی جا رہی تھیں، مختلف حلقوں میں نت نئی باتیں گھڑی جا رہی تھیں، اندازے لگائے جا رہے تھے، وہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا ہے۔ تمام اہل ِ سیاست نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا ہے اور اب اْمید کی جا سکتی ہے

کہ باقی تمام معاملات پر بھی سیاستدان بغیر کسی اَنا اور ضد کے ملکی مفاد میں فیصلے کریں گے،تھوڑی ہی سہی، اِس معاملے کے خوش اسلوبی سے طے پا جانے سے آس بندھی ہے، حوصلہ تو بڑھا ہے کہ ابھی تمام راستے مکمل بند نہیں ہوئے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ سیاسی قیادت چاہئے تو معاملات درست طریقے سے حل کیے جاسکتے ہیں، اس بار دونوں ہی اہم تعیناتیاں سینیارٹی کے اصول پر کی گئی ہیں

اور جن دو جنرل کو اہم عہدے دیئے گئے ہیں ،وہ دونوں ہی پاک فوج کے سینئر ترین باصلاحیت جنرل ہیں ،ایک طویل عر صے بعد اہم تعیناتی کرتے ہوئے کسی افسرکو سپر سیڈ کیا گیا نہ ذاتی پسند شامل حال رکھی گئی ہے، ملک بھر میں نئی عسکری قیادت کی میرٹ پرتعیناتی کو جہاں سراہا جارہا ہے ،وہیں نئی عسکری قیادت سے بہت سی امیدیں اور توقعات بھی وابستہ کی جارہی ہیں کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نجات بھی دلائیں گے ۔
اس وقت فوج کی نئی قیادت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا،ان میں اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی چیلنجز بھی ہیں،جو کہ نئی عسکری قیادت کیلئے نئے نہیں ہیں، انکے پاس پاک فوج کی کمان ان حالات میں آرہی ہے کہ جب مشرقی اور مغربی دونوں بارڈر پر دشمن سرگرم ہے، مشرقی بارڈر پر بھارت نے حالات کشیدہ کر رکھے ہیں

،گزشتہ روز ہی مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی جنرل آفیسر کمانڈنگ اِن چیف نے دعویٰ کیا ہے کہ یہاں تقریباً 300 عسکریت پسند موجود ہیں، بھارتی فوج آزاد کشمیر پر قبضے کے لیے حکومتی احکامات پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے،جبکہ مغربی سرحد پر افغان شرپسند آئے دن گڑ بڑ کرتے نظر آتے ہیں۔
عسکری قیادت نے جہاں بیرونی خطرات سے نبر آزما ہو نا ہے ،وہیں اندرونی معاملات کو بھی دیکھناہے ،ملک کے اندرونی چیلنجز میں سی پیک‘ دہشت گردی کیخلاف جنگ‘ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیاں اور کراچی میں ملک دشمن جرائم پیشہ عناصر کی موجودگی سرفہرست ہے ،پاک فوج اور سیاسی قیادت نے ہم قدم ہو کر پہلے بھی کامیابیاں حاصل کی ہیںاور اب بھی سی جذبے

‘ اتحاد اور اعتماد کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے ،نئے آرمی چیف یقیناً اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے ‘اس کیلئے پوری قوم کو ان کا ساتھ د ینا ضروری ہے اور معروضی حالات کا اشد تقاضا ہے کہ فوج کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں،نئی قیادت سے قوم کو توقعات ہیں کہ وہ آئین میں رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اوراہلیت کے مطابق اپنا کردار ادا کریںگے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عسکری قیادت کی تعیناتیوں کے ساتھ ہی افواہوں اور قیاس آرائیوں کی گرد بیٹھنا شروع ہو گئی ہے

، سیاسی محاذ آرائی کے بغیر جس طرح ایوان وزیراعظم سے سمری گئی اور اس سمری پر ایوان صدر نے فوری مثبت رد عمل دیا ،اس سے سیاسی حلقوں میں برف پگھلنے کی امید بھی ہو چلی ہے ،سیاسی قیادت کو چاہئے کہ اپنے معاملات مل بیٹھ کر حل کر نے کے ساتھ اپنی یکسوئی سوچ سے عسکری قیادت کو بھی تقویت پہنچائے ،عسکری قیادت سیاست سے دور ہوئی ہے تو اسے دور ہی رہنے دینا چاہئے

،سیاست دانوں کو اپنے معاملات سیاسی انداز میں خود ہی حل کرنے کی کوشش کر نی چاہئے ،سیاسی قیادت کا اب سارا فو کس محاذ آرائی کے بجائے ملک و عوامی مسائل کے تدارک کی جانب ہو نا چاہئے ،اس کیلئے سیاسی قیادت کو اپنے سب سے موثر فورم پارلیمنٹ کو بروئے کار لانے کی اشد ضرورت ہے

Exit mobile version