41

عوام حقیقی آزادی چاہتے ہیں !

عوام حقیقی آزادی چاہتے ہیں ! 

ملک میں حقیقی آزادی کی گونج بڑی شدت سے سنائی دیے رہی ہے ، تحریک انصاف قیادت ایک طرف فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب حقیقی آزادی کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں،یہ حقیقی آزادی کا نعراگزرتے وقت کے ساتھ عوامی نعرا بنتا جارہا ہے ، جبکہ حکومتی اتحاد کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف قیادت کے حقیقی آزادی کے نعرے کے ساتھ اْن کا لانگ مارچ بھی ناکام ہو گیا ہے ،

اس لئے اب اپنی صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی باتیں کی جارہی ہے ، جبکہ پچھلے کئی مہینوں سے بار بار پی ڈی ایم رہنما خودکہتے رہے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی قیادت فوری انتخابات چاہتے ہیں تو اپنی پنجاب و خیبر پختون خوا حکومتوں کی قربانی دیں تو پھرپی ڈی ایم کے پاس بھی فوری الیکشن کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں رہے گا۔
تحریک انصاف قیادت نے اپنی صوبائی اسمبلیاںتوڑنے کا اعلان کر دیا ہے تو پی ڈی ایم قیادت انتخابات کی جانب جانے کے بجائے دونوں صوبوں میں عدم اعتماد کی تحریکیں پیش کرنے لگے ہیں، تا کہ اسمبلیوں کو تحلیل نہ کیا جا سکے،لیکن اگراتحادی حکومت کی من منشاء کے مطابق ایسا ہو بھی گیا تو اسمبلیوں کی تحلیل کو چند ہفتوں تک ہی روکا جا سکے گا

،اتحادی حکومت وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے بھی اُمید لگا رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر سارا کھیل بدل دیں گے، لیکن اس بارے میں چو ہدری پرویز الٰہی اورمونس الٰہی نے واضح کر دیاہے کہ پنجاب حکومت عمران خان کی امانت ہے ،وہ جب بھی حکم دیں گے، پنجاب حکومت فوری طور پر ختم اور اسمبلی کو تحلیل کر دی جائے گی۔
اس بدلتی سیاسی صورت حال میںسیاسی طور پر چوہدری پرویز الٰہی کو پی ڈی ایم کے ساتھ ملنا سوٹ بھی نہیں کرتاہے ،ملک میں الیکشن چھ ماہ بعد ہوتے ہیں یا اگلے سال اکتوبر میں ، عوام کی اکثریت کی حمایت فی الحال عمران خان کے ساتھ ہی نظر آرہی ہے ،چوہدری پرویز الٰہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر عمران خان کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے تویقینی طور پر الیکشن جیت جائیں گے، دوسری صورت میں اْن کے لئے سیاسی رسک بہت زیادہ ہے،حکمراں اتحاد عمران خان کی سیاست کے متعلق جو بھی تاثر قائم کرے اور جتنا مرضی خوش فہمی کا شکار رہے ،لیکن حقیقت میں اْن کیلئے پہلے سے بھی زیادہ پریشانی کا وقت شروع ہو چکا ہے۔
تحریک انصاف قیادت جیسے جیسے اپنے کیے گئے ا علان کی جانب بڑھے گی، پی ڈی ایم کے لئے ویسے ہی مشکلات میں اضافہ ہو تا جائے گا، اس سے نہ صرف سیاسی ،بلکہ معاشی عدم استحکام مزیدبڑھنے کا اندیشہ ہے ،اس کا حکمراں اتحاد کو عمومی طور پر اور( ن) لیگ کو بالخصوص بہت زیادہ نقصان ہو گا،اس معاشی عدم استحکام کے نقصان سے پی ٹی آئی قیادت بھی بچ نہیں پائیں گے ،کیوں کہ اگر آئندہ انتخابات کے بعد اپنی حکومت بناتے ہیں

توانہیں بھی انتہائی خراب معیشت ملے گی ،اس خراب معیشت کے ساتھ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے ،یہ وقت محاذ آرائی کا نہیں ،افہام تفہیم سے معاملات سلجھانے کا ہے ،اتحادی حکومت کے لئے مناسب ہو گا کہ بے جا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پی ٹی آئی قیادت کو سنجیدگی سے بات چیت کی دعوت دیے، بات چیت سے سیاسی استحکام بھی آئے گا اور معاشی صورتحال بھی مزید ابتری سے بچ جائے گی۔
اس وقت پاکستان کے سارے مسائل کا واحد حل فوری عام نتخا بات میں ہی نظر آتا ہے ،لیکن اتحادی حکومت سب جانتے بوجھتے ہوئے عام انتخابات کرانے سے مسلسل گریزاںہے ، حکومت کب تک عام انتخابات میں ہار کے ڈر سے بھاگتی رہے گی،حکومت کو آج نہیں تو کل انتخابات تو کروانا ہی پڑیں گے ،اس لیے بہتر ہے

کہ ذاتی مفادات کو بلائے طاق رکھتے ہو ئے قومی مفاد میں مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے، فوری انتخابات کے انعقاد کیلئے عمران خان سے مذاکرات کئےجائیں، کیونکہ عمران خان کے انتخابی مطالبے کو غیرمعمولی عوامی حمایت بھی حاصل ہے ،اگر اس مطالبے کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا تواس سے سیاسی بے چینی مزیدبڑھے گی ،

اس کے نتیجے میں جہاں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو گا ،وہیںسیاست میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کرنے والی فوج کو بھی دوبارہ مداخلت کرنا پڑے گی۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس اشرافیہ سے عوام حقیقی آزادی چاہتے ہیں کہ جس نے پون صدی سے عوام پر اپنا تسلط جمارکھا ہے ،اس وقت سیاسی منظر نامے میں تحریک انصاف قیادت کے علاوہ کوئی ایسی قیادت نہیں ہے کہ جو ایسی اشرافیہ کے خلاف کھڑے ہونے کی جرأت کر سکے

،جوکہ عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہے ،تحریک انصاف قیادت بڑی جرأت کے ساتھ نہ صرف عوام مخالف اشرافیہ کے خلاف کھڑے ہیں ،بلکہ عوام کی حقیقی آزادی کیلئے مسلسل آواز بھی بلند کررہے ہیں ،اس ساری جدوجہد میں عوام بھی ان کا بھر پور ساتھ دیے رہے ہیں ، لیکن اس ملک میںجمہوریت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے

یا کیا جارہا ہے ،یہ کسی طرح بھی جمہوریت ہے نہ یہ حقیقی نظامِ اِنتخاب ہے ،اس طریقے سے کبھی تبدیلی آئے گی نہ ہی عوام کوحقیقی آزادی مل سکے گی، عوام کی حقیقی آزادی کیلئے پورا نظام بدلنا ہو گا اور یہ نظام انتخاب سے نہیں،عوامی انقلاب سے ہی بدلا جاسکتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں