36

سیاسی شطرنج کی بازی پر تگنی کا ناچ !

سیاسی شطرنج کی بازی پر تگنی کا ناچ !

ملک کی سیاسی قیادت نے پوری قوم کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے ،ہر طرف سیاسی شطرنج کی بازیاں آزمائی جارہی ہیں ، اس بازی گری میںملک کے بگڑتے حالات کا ادارک کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے ، گوکہ فوج نے اپنے اپ کو سیاست سے الگ رکھنے کا باربار اعلان کیا ہے، لیکن اس قسم کی خبر یں بھی آرہی ہیں کہ جس سے لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی بدلا نہیں ہے، گزشتہ دنوں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے چوہدری مونس الہٰی نے اپنے انٹرویو میں جو ہوش رْبا انکشافات کیے ہیں

، انہوں نے قومی سطح پر ایک تہلکہ مچا دیا ہے ، چوہدری مونس الہٰی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران جب اسٹیبلشمنٹ نے خود کو نیوٹرل رکھنے کا اعلان کیا ہوا تھا، اس وقت کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں خود کہا تھا کہ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑیں، حالانکہ ہم پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکے تھے اور اس سلسلے میں آصف زرداری کے پاس مٹھائی لے کر گئے

اور دْعائے خیر بھی ہو گئی تھی ۔چوہدری مونس الہٰی کے بیان اور انکشاف نے ً ہر پاکستانی کو حیران کر دیا ہے کہ سیاست میں عدم مداخلت کی یقین دہانی کے باوجود جنرل باجوہ دہرا گیم کھیل رہے تھے اور انہوں نے آخری وقت تک پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے، اس سلسلے میں مسلم لیگ( ق ) کے علاوہ دیگر اتحادیوں پر بھی دبائوڈالا گیا،

بلکہ آصف زرداری اور شہباز شریف کو بھی تحریکِ عدمِ اعتماد واپس لینے کے لیے کہا گیا تھا،اس سے واضح ہوتا ہے کہ جنرل باجوہ اپنی ذاتی حیثیت اور مفادات کے لیے وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے رہے ہیں،اگر چہ چوہدری مونس الہی نے سارے انکشاف بظاہر جنرل باجوہ کے خلاف پی ٹی آئی کے گالم گلوچ بریگیڈ کے جواب میں کیے،لیکن اس میں ایک اشارہ بھی دیے دیاگیا ہے کہ حالات کے تحت چوہدری صاحبان اپنا رْخ بدلنے کے لیے تیار ضرور ہو گئے تھے ،تاہم اگر عمران خان انہیں جون تک خدمت کا موقع نہیں دیتے

تو وہ کسی اور کو بھی اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کب تک پی ٹی آئی کا ساتھ دیتے ہیںاور کب دوسری جانب اپنا رخ موڑ لیتے ہیں ،اس سے قظع نظر ایک بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ مقتدر حلقے اپنی یقین دہانیوں کے باوجود غیر سیاسی نہیں تھے اور شایدآئندہ بھی غیر سیاسی نہیں رہیں گے

، کیو نکہ ہماری سیاسی قیادت اپنے سیاسی معاملات سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر حل کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ، وہ بار بار مقتدر حلقوں ہی کی جانب نہ صرف دیکھتے ہیں ،بلکہ یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ سارے معاملات ان کی من منشاء کے مطابق حل ہوں، تاکہ ان کی مکمل سپورٹ بھی حاصل رہے ،سیاسی قیادت جب تک غیر سیاسی قوت کی سپورٹ کی طلب گار رہے گی،ملک میں سیاسی استحکام کا خواب کبھی پورانہیں ہو سکے گا۔
ملک کے سیاسی حالات کیسے بدلیں گے؟ یہ آج کا سب سے اہم سوال ہے،اس حوالے سے سیاسی منظرنامے میں ایک اہم پیش رفت ضرور ہوئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر عام انتخابات کی تاریخ دی جائے، ورنہ اسمبلیاں توڑ دیں گے، ہمیں سیاسی استحکام کے لیے فوری الیکشن کی طرف جانا ہوگا،

اس کے ردعمل میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر ہی ہوں گے، عمران خان تو کہتے تھے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ مر جائوںتواب ساتھ بیٹھنے کا خیال کیسے آرہا ہے، ہم اسمبلیاں توڑنے کے عمل کو ویلکم نہیں کرتے ہیں، لیکناگر پی تی آئی قیادت اسمبلیاں توڑنا ہی چاہتے ہیں تو ضرور توڑ دیں، ساری ذمے داری ان پر ہی عائدہو گی ،جبکہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کاکہناہے کہ سابق وزیراعظم کی مذاکرات کی پیش کش پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے گی۔
یہ باتیں کب تک کسی منطقی حل کی طرف پہنچتی ہیں، یہ تو آئندہ چند دنوں میں معلوم ہو ہی جائے گا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ملک کا سیاسی منظرنامہ کوئی نیا نہیں ہے، پاکستان میں تاریخی طور پر کچھ ایسی ہی صورت حال ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی سیاست اپنی نہیں ہے، ان کا بظاہر ہر ا?ٹھنے والا سیاسی قدم بھی سیاسی نہیں ہوتا ہے ، یہ امر اس بات کا مظہر ہے کہ ہم جمود کا شکار ہیں

، اور اس کی وجہ سیاست دانوں کا مقتدر حلقوں کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ ہے، یہ نئی قیادت کے آنے کے بعد کس حد تک تبدیل ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن اس جھوٹ سچ پر مبنی کھیل میں ہم نے بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ مزید کھو سکتے ہیں، اس لیے سیاسی وغیر سیاسی قیادت کو اپنی روش تبدیل کرنا ہو گی ،ملکی قیادت جب تک اپنی روش نہیں بدلے گی ،حالات نہیں بدلیں گے۔
یہ ملک ِ خداداد تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ایک نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا تھا، تحریک ِ پاکستان محض ایک خطہ حاصل کرنے کی تحریک نہیں تھی، بلکہ ایک تہذیبی اور نظریاتی تحریک بھی تھی،

لیکن اس عظیم مقصد کو کہیں دور ہی چھوڑ دیا گیاہے،اس کا نتیجہ ہے کہ ہم شدید نوعیت کے تضادات اور تصادمات کی وجہ سے سیاسی و معاشی مشکلات کی زد میں ہیں، کیونکہ جب منزل کی کوئی سمت ہی نہیں ہوگی تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ وقتی مقاصد بھی حاصل نہیں ہوتے ہیں،اس وقت سیاسی حلقوں میں کوئی ایسی قد آور شخصیت دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،جو کہ قومی مفاد کی خاظر سیاسی مفاہمت یقینی بناسکے

،لیکن اس میں بھی ایک خوش آئند پہلو ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو یہ بیڑا خود ہی اُٹھا نا ہے ،اب دیکھنا ہے کہ سیاسی قیادت کس درجے کی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہیں،سیاسی انتشار کا قصہ یہیں تمام کیا جاتا ہے یا اس کے اثرات اور باقیات آنے والے دور پر بھی برقرار رہتے ہیںاور قوم سیاسی شطرنج کی بازیوں پر ایسے ہی تگنی کا ناچ ناچتی رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں