37

معاشی سہارے کیلئے اشرافیہ کی قربانی !

معاشی سہارے کیلئے اشرافیہ کی قربانی !

ملک میں ایک طرف سیاسی عد استحکام ہے تو دوسری جانب معیشت کی حالت روز بروز پتلی ہوتی جارہی ہے ،وزیر خزانہ اسحاق ڈار روزانہ کی بنیاد پر عوام کو زبانی کلامی تسلیاں دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ،مگر ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے کے بجائے دن بدن بگڑتے ہی جارہے ہیں ،ملک بھرمیں کاروباری اور صنعتی اداروں کی حالت زار بھیبد تر ہونے لگی ہے، چھوٹی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک چھوڑ کر جارہی ہیں،پا کستانی سرمایہ داربھی اپنے سر مائے سمیت ملک چھوڑ رہے ہیں،اس صورتحال میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار عام آدمی ہورہا ہے ،اس پر ایک طرف ریکارڈ مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جارہاہے تو دوسری جانب روز گار ختم ہونے کے باعث آمدن بھی کم ہو رہی ہے۔
ملک پر منڈلاتے خطرات سے معاشی ماہرین بڑے عرصے سے خبر دار کرتے آرہے ہیںکہ ملکی معیشت تیزی سے نیچے کی طرف جارہی ہے اور اس کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے ،لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اسے سنجیدہ لینے سے انکاری ہیں ، سیاسی قیادت کیلئے معیشت سے زیادہ اپنے مفادات اہم ہیں

،انہیں معیشت کی بدحالی کی کوئی پروا ہے نہ عوام کا کچھ خیال ہے ،تاجر برادری کے کچھ حلقوں نے مل کر میثاق معیشت کیلئے بھی کوشش کی تھی ،لیکن حکومت اور اپوزیشن قیادت جہاں ایک دوسرے کے خلاف تندو تیز بیانات دینے کے عادی ہوجائیں ،وہاں اس طرح کے میثاق کیلئے ان کا اکھٹے بیٹھنااور بات کرناکوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے ۔اتحادی حکومت کو میثاق معیشت سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر کھائے جارہی ہے ،اس لیے ان کی ساری توجہ معیشت کی بحالی کے بجائے اپنے اقتدار کے بچانے پرہے

، ملکی معیشت کی بحالی کاکام وزیر خزانہ اسحاق کے سپرد کر دیا گیا ہے،مگر وزیر خزانہ کےسارے دعوئوں کے باوجود صورتحال اتنی خراب ہوتی جارہی ہے کہ اب طبی آلات اور دفاعی سازوسامان کی در آمد کیلئے بھی ڈالر کی دستیابی مسئلہ بنتی جارہی ہے ،کیو نکہ حکومت کے پاس اب زر مبادلہ کے ذخا ئر ختم ہوتے جارہے ہیں

،اس کے باعث ہم ایک ایسے تشویش ناک مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ جس کے بارے میں ماہرین پہلے سے ہی خبردار کررہے تھے کہ اگر حکومتی قیادت ڈنگ ٹپائو پروگرام پر ایسے ہی عمل پیراں رہے اور بروقت معیشت کی بحالی کی طرف توجہ نہ دیتے ہوئی مؤثر حکمت عملی نہ بنائی تو اس کے اثرات ملکی دفاع پر بھی پڑیں گے ۔
اس وقت سب سے زیادہ تشویش کی بات ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات ارب ٖڈالر رسے بھی کم رہ گئے ہیں تو بیرون ملک مقیم پا کستانیوں کی جانب سے آنے والی تر سیلات زر اور برآمداد میں بھی کمی آرہی ہے ،اس سے پا کستان پر بیرونی ادائیگیوں کا دبائو مزید بڑھ رہا ہے

،ہمارے لیے عالمی ریٹنگ ایجنسیوںکی طرف سے پا کستانی ریٹنگ گرانے کے باعث کمرشل قرضے حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے،اگر کوئی قرض دیگا بھی تو اس پر شرح سود اتنی زیادہ ہو گی کہ پا کستان متحمل نہیں ہو سکے گا ،جبکہ پا کستان کو اگلے بارہ ماہ کے دوران چھبیس ارب ڈالر سے زائد کے قرضے واپس کرنے ہیں،اس بدتر ہوتی صورتحال میں سیاسی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے اورمل بیٹھ کر سیاسی معاملات سیاسی انداز میں حل کرنے چاہئے،کیو نکہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے

گاہمارا سیاسی بحران اور معاشی زوال ایسے ہی جاری رہے گا۔ہمارے حکمران قیادت کا وطیرہ رہا ہے کہ ملک کو در پیش مشکل معاشی حالات میںاپنے وسائل کو بروئے کار لانے کے بجائے دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروںسے مدد لینے کی کوشش کرتے ہیں،یہ دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں کا پاکستان پر اعتماد ہے کہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے مثبت اقدامات کرتے آرہے ہیں ،لیکن یہ اعتماد بھی اب بے اعتمادی میں بدلنے لگا ہے

، اس بات پر ہمارے مقتدر حلقوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ آخر کب تک ہم دوسروں کی مدد کی بیساکھیاں لے کر معیشت کو کھڑا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیاہے کہ پاکستان ہر سال اشرافیہ کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات دیتا ہے

، کیا ہم کسی بھی طرح ایسی ساری مراعات کم کر کے ملکی معیشت کو استحکام کی راہ پر نہیں ڈال سکتے ؟ کیا ہماری اشرافیہ اتنی طاقتور ہے کہ ملکی مفادات کوان کے مفادات پر قربان کیا جارہا ہے اور اس کے خلاف کوئی بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہے؟اگر کوئی آواز اُٹھانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس کی آواز کو زور زبردستی سے دبادیا جاتا ہے ، پون صدی سے معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوام سے ہی قربانیاں لی جارہی ہے، ایک بار اشرافیہ سے بھی قربانی لے کر دیکھ لیا جائے کہ حالات میں کتنی بہتری آتی ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں