جب سے کرونا وائرس کا عذاب آیاہے اس سے پوری دنیا متاثرہوئی ہے حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے 92

کیا وباؤںکا مقابلہ ممکن ہے؟

کیا وباؤںکا مقابلہ ممکن ہے؟

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

جب سے کرونا وائرس کا عذاب آیاہے اس سے پوری دنیا متاثرہوئی ہے حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ کرونا وائرس نے اس سال مسلمانوں کی ایک بنیادی عبادت حج کے انعقاد پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ سعودی حکومت نے مسلم ممالک سے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی تیزی سے پھیلتی وبا کے پیش نظر ادائیگی حج کیلئے معاہدوں سے فی الحال گریز کرے۔ تاریخی طور پر ماضی میں بھی حج کے انعقاد میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی رہی ہیں۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے

کہ کئی بار بیماریاں پھیلنے، مکہ مکرمہ پر چڑھائی اور عازمین حج پر رہزنوں کے حملوں کے باعث حج متاثر ہوتا رہا ہے۔ 1000 ھ میں حج بڑھتے ہوئے سفری اخراجات اور دوسرے مسائل کی وجہ سے نہ منعقد ہو سکا۔ تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 1831 میں انڈیا کی طاعون کی وبا ء پھیلنے سے دو تہائی عازمین حج جاں بحق ہو گئے جن کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے جس کے باعث حج کی ادائیگی متاثر ہوئی

چونکہ ان دنوں بہتر سفری سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں زیادہ ترلوگ بحری جہازوںکے ذریعے حج کا فریضہ انجام دیاکرتے تھے بیشتر مذہبی سکالرز اور علماء اس حدیث کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ اگر کسی علاقے میں طاعون کی وبا ء پھیلے تو وہاں مسلمانوں کو جانے سے گریز کرنا چاہیے اور چونکہ اس سال کرونا وائرس کی وباء پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے سعودی عرب میں ان دنوں رات کا کرفیو نافذ ہے

اس کے تناظر میں فی الحال سعودی حکومت فیصلہ نہیں کرپارہی کہ اس سال حج کا فریضہ انجام دیا جائے یا نہیں کیونکہ اس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہے وہاں سے دوسرے علاقوں میں مسلمان کو سفر نہیں کرنا چاہیے۔ سعودی عرب میں کووڈ 19 وائرس سے 119 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سعودی حکومت نے بیت اللہ شریف میں عبادت اور طواف کو محدود بھی کیا ہے۔ یہ فیصلہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہوا ہے

۔ سعودی عرب میں کرونا وائرس کے کیس بڑھتے جا رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اللہ رب العزت کے کرم سے حج کے ایام سے کہیں پہلے یہ وبا ء ختم ہو جائے گی اور حج کا انعقاد ممکن ہو گا لیکن اس کے انعقاد پر ابھی تک سوالیہ نشان موجود ہے اس صدی کے سب سے خوفناک عذاب کے نتیجہ میں دنیا بھر میں نوول کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 12لاکھ کے قریب اور ہلاکتیں65,000 1,سے زائد ہوگئی ہیں

اس وقت امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ مریضوں والا ملک بن گیا جہاں ہلاکتیں 40ہزار سے تجاوز کرگئیں ،اٹلی اور اسپین میں متاثرہ افراد کی تعداد ایک ایک لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے، جاپان کے شہری علاقوں میں کیس بڑھنے لگے دنیا بھر میں سب سے زیادہ مریض امریکہ میں ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا

کہ اگلے 2ہفتے بہت دردناک ہیں امریکہ کو اس حقیقت کی تیاری کرنے چاہیئے خدشہ ہے1لاکھ امریکی شہری نوول کروناوائرس کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے۔ ۔ تاریخی اعتبار سے یہ وبائیں دنیا میں پہلی بار نہیں آئیں گذشتہ 50 برسوں میں کئی انفیکشن ارتقا ء پا کر جانوروں سے انسانوں تک تیزی سے پھیلے ہیں۔ ہر انفیکشن کی علامات مختلف ہوتی ہیں انسان ہمیشہ سے ہی جانوروں کی وجہ سے بیمار پڑتے رہے ہیں۔

درحقیقت زیادہ تر نئے انفیکشن جنگلی حیات سے ہی آتے ہیں۔ حال ہی میں یہ پایا گیا کہ سانس کی شدید تکلیف پیدا کرنے والا وائرس سارس مْشک بلاؤ کے ذریعے چمگادڑوں سے انسانوں تک آیا جبکہ چمگادڑوں نے ہی ہمیں ایبولا وائرس دیا اس بیماری کی علامات میںسانس لینے میں دشواری ہے

جس سے انسان کے پھیپھڑے شدید متاثرہوتے ہیں مریض احتیاطی تدابیرسے صحتیاب ہوجاتاہے ایک اور وائرس جس کا نام زیکاہے جس میں بیماری کی علامات میں جوڑوں کا درد اور جلد دار خارش شامل ہیں اس میں مریض تیزی سے صحت یاب ہوسکتاہے کیونکہ انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات صرف 20% ہیں بروقت علاج سے مرض پرقابوپایاجاسکتاہے اس خطرناک وائرس جس کا نام ایبولاہے اسے دہشت کی علامت بھی کہاجاسکتاہے

اس میںکمزوری اور بخاربیماری کی نمایاں علامات ہیں یہ کرونا سے بھی خطرناک وائرس ہے جس میں موت کا امکان 90 % ہے ایک اور وائرس جسے ماہرین نے ماربرگ بخار کا نام دیاہے اس میں بیماری کی علامات ہاضمہ اور معدہ کی پریشانیوں کے سبب 10 دن بعد موت واقع ہوجاتی ہے کیونکہ انفیکشن کے بعد مرنے کا امکان : 88 % ہے۔ بیماری کی علامات : ذہنی الجھنوں کے بعد نفسیاتی طورپر انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے

نپاہ نامی وائرس کاانفیکشن ہونے کے بعد مرنے کے امکانات 75% بیان کئے جاتے ہیں اس وائرس سے انسان کااعصابی نظام بری طرح متاثرہوجانے سے انسان ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتاہے۔ایک اور وائرس جسے کریمین کانگو بخار کانام دیاگیاہے اس کی بیماری کی علامات میں منہ اور ناک سے ٹکراؤ اور خون کااخراج تیزی سے ہوتاہے اس انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات : 40% ہیںڈاکٹروںنے ایسے مریضوںکو بلڈپریشر نارمل رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ایک اور بیماری انفلوئنزا ہے

یہ بڑی عام سی بیماری ہے عموماً موسم کی تبدیلی کے باعث ہرسال محدود مدت کیلئے آتی ہے یہ بھی وائرس کے نتیجہ میں پھیلتی ہے انسانوں کے علاوہ بندر واحدجانور ہے جسے نزلہ،زکام ہوتا ہے اس مرض میں ،چھینکیں، جلن اور گلے میں سوزش ہوتی ہے اس سے مرنے والوںکی تعداد%13 ہے

لیکن بوڑھے، بیمار اور لاپرواہ اس عالمی وباء کروناوائرس سے شدید متاثرہوتے ہیں ان میں قوتِ مدافعت نہ ہونے کے سبب موت کے بہت چانسزہیں کیونکہ اس بیماری کی علامات میں سانس کی نالی میں انفیکشن،شدید بخار اور نمونیہ ہوجاتاہے یہ خطرناک اس لئے ہے کہ یہ چھوت کی بیماری ہے بڑی آسانی سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوجاتی ہے یہ قابل ِ علاج ہے احتیاطی تدابیراختیارکرکے اس سے چھٹکارا ممکن ہے اس وائرس میں انفیکشن کے بعد صحت مندافراد کے مرنے کے امکانات صرف 3% ہیں لیکن بچوں،بوڑھوں اور بیماروں پر یہ حملہ آورہوجائے تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے

کیونکہ کرونا وائرس سے مرنے کی بڑی وجہ انسان کا خوف زدہ ہونا ہے۔ اور دوسری وجہ ایلوپیتھک میڈیسن سے علاج ہے کیونکہ ایمیونٹی کے کم ہوتے ہی بیماری جسم پر حاوی ہو جاتی ہے اگر ایمیونٹی یعنی قوت مدافعت طاقتور ہے تو انسان پر کوئی بھی بیماری حملہ آور نہیں ہو سکتی اور اگر قوت مدافعت بڑھانی ہے تو فروٹ اور کچی سبزیاں کھائیں اور کوکونٹ کا پانی پئیں اور کولڈ ڈرنک، فاسٹ فوڈ ،جنک فوڈ پراسیس، فوڈ پیکڈ فوڈ اور سگریٹ بالکل چھوڑ دیں اگر صحت مند انسان بھی خوف زدہ ہو جائے

تو وہ مر جائے گا جیسا کہ پرانا مقولہ ہے کہ ڈر موت کا بھائی ہے۔ اس مرض کا واحد علاج احتیاط ہے چونکہ اس نے عالمی وباء کی شکل ا ختیارکرلی ہے اس لئے زیادہ خوفناک ہوگئی ہے ویسے بھی مشہورمقولہ ہے احتیاط علاج سے بہترہے ہم سب کو احتیاط کی ضرورت ہے دوسروںکے ساتھ ہاتھ ملانے،گلے لگانے سے گریزکیاجائے،ہجوم والے مقامات پرجانے سے پرہیزکریں،ماسک کااستعمال کریں،وقتاً فوقتاً 20-20 سکینڈ اچھے طرح ہاتھ دھونے سے وائرس سے بچاجاسکتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں