49

تختِ پنجاب کا سیاسی دنگل !

تختِ پنجاب کا سیاسی دنگل !

تحریک انصاف قیادت کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے اعلان کے بعد سے پنجاب کی سیاست میں گہما گہمی اپنے عروج پر ہے ،ایک طرف مسلم لیگ( ق)اور تحریک انصاف میں سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہوورہی ہے تو دوسری جانب حکومتی اتحاد کے اجلاس بھی جاری ہیں اور پنجاب اسمبلی کو بچانے کیلئے ہر ممکن تدابیر بروئے کار لائی جارہی ہیں

،اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی نے جہاں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی ہے،تووہیںگورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے بھی وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کردی ہے ،اس سے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کاراستہ تو رک گیا ،لیکن سیاسی انتشارکا راستہ کھل گیا ہے ۔پا کستانی قوم کے سامنے ایک بار پھر سیاسی کھیل تماشا شروع کر دیا گیا ہے

، اسمبلیاں گرانے او بچانے کے نام پرسر عام جوڑ توڑ کیا جارہا ہے ، وفاداریاں تبدیل کروائی جارہی ہیں ، ایک دوسرے کو بلیک میل کیا جارہا ہے ،اس پر کسی کو شرم آرہی ہے نہ اس بات کا خیال ہے کہ عوام کے سامنے سب کے چہروںے سے نقاب اتر رہے ہیں،عوام پر سب کا نہ صرف کردار واضح ہورہا ہے ،بلکہ یہ بھی پتا چل رہا ہے

کہ سیاست کے اس حمام میں سب ننگے اور سب ہی گندے ہیں ،انہیں ملک وعوام کی کوئی پروا ہے نہ قومی مفاد کا کوئی خیال ہے ،یہ اپنے ذاتی مفادات اور حصول اقتدار میں سب کچھ ہی دائو پر لگانے کیلئے تیار ہیں ۔
ملک اندرونی اور بیرونی بحرانوں میں گھرا ہے ،سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ ملک و عوام کو درپیش بحرانوں سے نجات دالائے ،مگر وہ اپنی سیاسی بازی پلٹنے میں ہی مصرف کار ہے ،ایک کا زور اسمبیاں تحلیل کرنے پر ہے تو دوسرا اقتدار بچانے کیلئے سارے ہی حربے استعمال کررہاہے ،جبکہ تیسر ا وقت سے بھر پور فائدہ اُٹھا نے میں کو شاں ہے ، اس سارے کھیل تماشے میں ملک وعوام کا نقصان ہورہا ہے

،ایک طرف ملک معاشی طور پر دیفالٹ ہورہا ہے تو دوسری جانب سیکورٹی خطرات بھی بڑھتے جارہے ہیں ،ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر اُٹھنے لگی ہے ،دہشت گردی کے پے درپے واقعات بڑھنے لگے ہیں ،اس پر سیاسی قیادت کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے الزامات کے تبادلے کا موقع نکا لا جارہا ہے ،یہ بدلتے حالات کی سنگینی سے چشم پوشی کا عالم قومی تحفظ کے تقاضوں کے منافی ہے۔
سیاست میں اختلافات انہونی بات نہیں ،مگر سیاسی اختلافات کا ذاتی اختلاف میں بدلنا باعث تشویش بنتا جارہا ہے ،ایک طرف سیاست میں بڑھتے اختلاف ہیں تو دوسری جانب ملک کے بتر ہوتے حالات ہیں ،اس صورتحال میں سبھی رہنما مانتے ہیں کہ سیاسی استحکام قومی ترقی کا تقاضا ہے ،اس پر بھی سبھی کا اتفاق ہے کہ ملک کو جن گمبھیر مسائل نے گھیررکھا ہے ،اس سے نکلنے کیلئے سیاسی استحکام نا گزیر ہے

،مگرسیاسی استحکام کے حصول کے طریقہ کار پر اختلاف قدم سے قدم ملا کر چلنے میں مزاحم ہے ،اس کا ہی نتیجہ ہے کہ کسی معاملے پر بھی اتفاق رائے بنتا نظرنہیں آرہا ہے ،اختلاف رائے خیر کا سبب ہو سکتا ہے ،لیکن اگر اختلاف اصول کے بجائے اَنا اور ضد کا مسئلہ بن جائے تو پھر موافقت ممکن نہیں ہے ۔
ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے رویئے تبدیلی لانے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں ،وہ پرانی باتوں کو دہراتے تھکتے ہیں نہ اپنی نااہلیوں کابوجھ دوسرے کے کندھے پر ڈالنے سے باز آتے ہیں،ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کی غلطیاں گنواتی ہے، اْس کی کارکردگی پر تنقید کرتی ہے، اپنی تمام توانائی اْس کو برا اور اپنے آپ کو اچھا اور انصاف پسند ثابت کرنے میں گزار دیتی ہے اور جب وقت گزر جاتا ہے

تو موقع نہ ملنے کا راگ آلا پناشروع کر دیا جاتا ہے، جو وقت گزر گیا،سو گزر گیا، اب وہ کسی صورت واپس نہیں آئے گا لیکن آنے والے وقت کو بہترین بنانا تو ہمارے ہاتھ میں ہے،لیکن اس وقت کو بہتر بنانے کے بجائے محاذآرائی کی نظر کردیا جاتا ہے۔اتحادی قیادت اپنے ماضی سے سیکھنے کے بجائے دوبارہ وہی غلطیاں دھرارہے ہیں ، اتحادی کل تک پی ٹی آئی کو اسمبلیاں توڑنے کی تر غیب دیے رہے تھے

،آج اسملیاں بچانے کیلئے آئین کی آڑ میں سارے جائز وناجائز حربے استعمال کررہے ہیں ، یہ سارا سیاسی کھیل تخت پنجاب کے حصول کیلئے کھیلا جارہا ہے، اِس سلسلے میں وزیراعظم شہبازشریف اور آصف علی زر داری چوہدری شجاعت حسین سے اْن کی رہائش گاہ پر ملاقاتیں کررہے ہیں ،اس میں جہاں تخت پنجاب کیلئے جوڑ توڑ کیا جارہا ہے،

وہیں ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ اگر چوہدری شجاعت ضامن بن گئے تو مسلم لیگ (ن) چوہدری پرویز الٰہی کو بطور وزیراعلیٰ قبول کر سکتی ہے، بہرحال دیکھتے ہیں کہ یہ تختہ پنجاب کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے،لیکن اس سیاسی دنگل میں اتحادی قیادت کے ساتھ چوہدری برادران کی اصلیت بھی کھل کر عوام کے سامنے آجائے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں