50

دہشت گردی پر سیاست نہ کی جائے !

دہشت گردی پر سیاست نہ کی جائے !

ملک میں ایک طرف سیاسی سرکس لگا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کے یک بعد دیگرے واقعات بڑھنے لگے ہیں ، گزشتہ روز محکمہ انسداد دہشت گردی بنوں کے کمپائونڈ میں قیدی دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو یر غمال بنانے کے بعد افغانستان تک محفوظ فضائی راستہ فراہم کرنے کا مطالبہ کررہے تھے ،سکورٹی ادارے پہلے دہشت گردوں سے مذاکرات کرتے رہے ، بعد ازاں مذاکرات کا میاب نہ ہونے پر کلیرنس آپریشن کا فیصلہ کیا گیا

،اس آپر یشن میں سارے دہشت گردوں کو ہلاک کرکے یر غمال عملے کی محفوظ رہائی یقینی بنا لی گئی ہے ،یہ سکورٹی اداروں کا کا میاب آپریشن دہشت گردی کے خلاف ایک اہم کا میابی ہے ،لیکن اس کے ساتھ افسو ناک پہلو ہے کہ خیبر پختونخوا ، بلو چستان میںدہشتگردی کا عفریت دوبارہ شدت سے سر اُٹھا رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے سیکورٹی اداروں نے بڑی قر بانیاں دیے کر ملک میں قیام امن کو بڑی حد تک یقینی بنایا ہے ،لیکن دہشت گردوں کا صفایا ہونے ا ور ان کی کمر تورنے کے بعد بھی ٹوٹی کمروالے دہشت گرد بڑی بڑی وار داتیں کررہے ہیں ،بنوں کے تازہ واقعہ میں بتا یا جارہاہے کہ خطرناک دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی کے بنوں ہیڈ کوارٹر میں سیکورٹی عملے کو یر غمال بنالیا تھاتو پھر سوال پیدا ہوتا ہے

کہ کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کس مرض کی دوا ہے ،یہ سپر ڈگری والی چیز ہے، دہشت گردی سے قبل ہی دہشت گردوں کو پکڑ لینے والا ادارے کا کام ہی دہشت گردی کا انسداد ہے، لیکن اگردہشت گردی کے انسداد کے بجائے ادارہ خود ہی دہشت گردوں کے قبضے میں آجائے تو پھر یہ سوال تو ہوگا کہ قوم کا اتنا پیسہ اس ادارے پر کیوں لگایا جارہا ہے؟دہشت گردی کا مؤثرمقابلہ کر نے کیلئے سیکورٹی اداروں کو وسائل فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،لیکن حکومت کا غیر ذمہ دار انہ رویئے سے سب ہی بخوبی اشناں ہیں

،حکومت اور اپوزیشن دونوہی کی تر جیح قومی کے بجائے ذاتی مفادات رہے ہیں،اس واقعے پر بھی دونوں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بیانات دینے میں مصروف ہوگئے اور ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے میں لگے رہے ہیں کہ وفاق یاصوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی، اس ا لزام تراشی اور بحثوں کا کیا فائدہ، یہ بات سب بخوبی جانتے ہیں

کہ کس کی کیا ذمے داری ہے، لیکن اپنی اصل ذمے داری سے پہلوتہی کرنا تو ہمارے تمام ہی اداروں کا وتیرہ رہاہے، اب جبکہ پتا چلا ہے کہ تمام خطرناک دہشت گرد مارے گئے ہیں تو اس واقعے کے حقائق پر بھاری پردہ پڑ جائے گااورسرکاری موقف ہی آخری موقف قرار پائے گا، یہ کون بتائے گا کہ اس مرکز میں کون کون سے ہائی پروفائل دہشت گرد تھے،ان کی وہاں موجودگی ریکارڈ پر بھی ہے یا نہیں،یہ کون بتائے گا

کہ وہاں کون لوگ تھے، یہ شبہات صرف اس لیے ہیں کہ کراچی ، ساہیوال اور ملک کے مختلف حصوں میں سی ٹی ڈی کے کارناموں سے سارے بخوبی واقف ہیں ،اس لیے وفاق اور کے پی کے حکومت دونوںہی واقعے پر سیاست سے باز رہیں اور قوم کو حقائق سے آگاہ کریں، اگر اسطرح ہی ہر واقعے پر سیاست کرتے رہے تو عوام کا اعتماد سیکورٹی کے ذمے دار اداروں پر سے بھی اُٹھ جائے گا۔
اس وقت ایک طرف اندرون ملک دہشت گردی کے واقعات پر سیاست ہورہی ہے تو دوسری جانب اقوام متحدہ اور امریکا کا ردعمل بھی انتہائی معنی خیز ہے، اقوام متحدہ نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کو روکیں اور امریکا کا کہناہے کہ اس دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مدد کو تیار ہیں، اقوام متحدہ اور امریکا کے ایسے بیانات سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے کون ہے

اور دہشت گردی کے مراکز کہاں واقع ہیں، ابھی دو روز قبل ہی امریکی ریاست میں فائرنگ کا واقعہ ہوا ہے ،مگرکسی ملک نے بھی نہیں کہا کہ امریکا میں فائرنگ کے واقعات روکے جائیں، بھارت میں بھی بڑے بڑے واقعات ہورہے ہیں ،لیکن کوئی ملک نہیں کہتا کہ بھارت دہشت گردی کے واقعات روکے،وہ کشمیر میں آئے روزدہشت گردی کرتا ہے عوام کو یرغمال بناکر ان پر ریاستی دہشت گردی مسلط کررہا ہے لیکن کوئی نہیں کہتا ہے کہ بھارت دہشت گردی بند کرے،اُلٹاس کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔
اقوام متحدہ اور امریکا کے بیانات واضح کررہے ہیں کہ پاک افغان تعلقات خراب کرنے کے لیے جتنی کوششیں ہورہی ہیں وہ کہاں سے ہورہی ہیں، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی خرابی دونوں ممالک کے حق میں نہیں اور ان دونوں ممالک کے اچھے تعلقات امریکا کے حق میں نہیں اور خرابی میں امریکا کا فائدہ ہے،

اس لیے مالی تعاون کی پیشکش بھی کی جارہی ہے،پاکستان کی نئی فوجی قیادت، مرکزی حکومت اور قومی سیاسی رہنمائوں کی ذمے داری ہے کہ ایک نئی وار آن ٹیرر کو چھیڑنے کے بجائے اپنے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے پر زور دیے،امریکا اور مغرب ہمیشہ پاکستان سے اپنے پڑوسی بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے پر زور دیتے ہیں اور افغانستان سے تعلقات خراب کروانے کی کوشش کرتے ہیں،یہ ہمارے ساتھ د و رنگی کب تک چلے گی اور ہم جانتے بوجھتے اس دورنگی کے آلہ کار بنتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں