یہ ملک تو سب کا ہے !
یہ ملک سب کا ہے اور اس کا خیال رکھنا سب ہی کی ذمہ داری ہے ،لیکن ہماری سیاسی قیادت کی باہمی کشمکش نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیاہے ،سیاستدان جو غلطیاں ماضی بار بار کرتے رہے وہی پھر سے دہرا رہے ہیں،یہ اپنی سیاست کیلئے، اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کیلئے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے تک لے آئے ہیں،یہ سب کو نظر آرہا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کی راہ پر گامزن ہے، لیکن حکومتی اتحاد ماننے کیلئے تیار ہے نہ سیاسی و معاشی حالات کی بہتری کیلئے کوئی اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں
،اُلٹا سیاسی محاذ آرائی کے ذریعے سیاسی ومعاشی عدم استحکام مزید بڑھایا جارہا ہے، اس صورتحال میںکسی کوبھی لایا جائے حالات بہتر نہیں ہو سکتے، کیوں کہ ملکی حالات بدلنے کیلئے سیاستدانوں کو اپنا رویہ بدلنا پڑے گا، اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا ، لیکن اس کیلئے ہماری سیاسی قیادت بالکل تیار ہی نہیں ہے۔تحریک انصاف حکومت کا خاتمہ کر کے پی ڈی ایم حکومت کے قیام کا تجربہ بھی ناکام رہا ہے ،ہمارے سیاسی اور معاشی حالات بد سے بدتر ہو تے جارہے ہیں،
ملک بھر میں کسی سے بھی بات کر لی جائے، سب ہی مانتے ہیں کہ ہمارے بد ترحالات کا واحدحل فوری انتخابات ہیں ،مگر حکومتی اتحاد اپنی ہار کے خوف سے انتخابات کرانے سے گریزاں ہے ،ملک میں عام انتخابا کے بجائے تحریک عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ اور اس کے بعد اسمبلی توڑنے کی باتیںکی جارہی ہیں، اس سیاسی کھیل کھلنے کا کیا مطلب ہے، اس سیاسی کھیل سے خود کو بہلایا جارہا ہے
کہ عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ، عوام کی غالب اکثریت کو یقین ہوچکا ہے کہ ملک کا اصل مسئلہ اسمبلیاں توڑنا اور اسمبلیاں بچانا ہی رہ گیا ہے، لیکن اس ہنگامے اور جوڑ توڑ کے نتیجے میں عوام پر جو ظلم ہورہا ہے اور جس چکی میں عوام پس رہے ہیں،اس جانب کسی کی کوئی توجہ ہے نہ ان کی تر جیحات میں کہیں عوامی معاملات حل ہوتے نظر آتے ہیں۔سیاسی قیادت آئے روز صبح نیا شوشا چھوڑ دیتے ہیں
اور عوام اس کے پیچھے لگ جاتے ہیںکہ اسمبلی ٹوٹے گی یا نہیں ٹوٹے گی، حکومتی اتحاد جارہا ہے کہ عمران آرہا ہے، یہ جب چاہیں عدالت چلے جائیں، جب چاہیں جلسے جلوس کرنے لگیں اور جب چاہیںاسمبلیوں میں واپس آجائیں گے،لیکن اس سیاسی محاذ آرائی میں عوام کے ساتھ جو ہورہا ہے، وہ عوام تنے تنہا ہی بھگت رہے ہیں،ایک طرف انتہائی مہنگائی تو دوسری جانب بیروزگاری اور بدامنی بڑھتی جارہی ہے،
لیکن اس جانب توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے ،عوام تنہاکیاکر سکتے ہیں ،انہیں تو بڑھتی مہنگائی پر احتجاج و جلوس نکالنے کیلئے بھی سیاسی قیادت کا سہارا لینا پرتا ہے ،جبکہ سیاسی قیادت عوام کی بات کرنے کے بجائے اپنے سیاسی ایجنڈے کا پر چار کرتے ہیں ،ایک دوسرے کو مود الزام ٹھر انے لگتے ہیں
،اس الزام تراشی کی سیاست میں عوام کی حالت مزید دن بدن پتلی ہوتی جارہی ہے۔اس ملک پر حکمرانی کرنے والوں نے کبھی عوام کا خیال ہی نہیں رکھا ہے، وہ اقتدار کیلئے آتے ہیں اور اقتدا کو بنانے اور بچانے میں ہی لگے رہتے ہیں، انہیں ملک کی کوئی پروا ہ ہے نہ عوام کا کوئی خیال کرتے ہیں، پاکستان میں اتنی صلاحیت ہے
کہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرسکتا ہے، اس کی زراعت، اس کے جنگلات، سیاحتی مقامات، اس کے پاس موجود ٹیکنالوجی، افرادی قوت، یہ سب ایک مثبت طاقت ہے، لیکن اسے غیر ضروری معاملات اُلجھا ئے رکھا جارہاہے ،یہاں پر جو قوتیں اسمبلی توڑنے اور بچانے کا کھیل کھیل رہی ہیں، ان کا مسئلہ روٹی روزگار اور پر امن ماحول نہیں ہے ،یہ سب چیزیں ان کے پاس موجود ہیں، اس لیے ایسی ہی سیاست کریں گے، جو کہ وہ کررہے ہیں، لیکن اس کا سارا بوجھ اور خمیازہ اکیئے عوام کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
یہ صورتحال قابلِ افسوس اور لائقِ مذمت ہے ،اس وقت ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک کو سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنے نظریاتی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ملک کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی راستہ نکالے ،لیکن کوئی بھی سیاسی رہنما اس جانب توجہ دیے رہا ہے نہ مل بیٹھ کر معاملات سلجھانے کی کوشش کررہا ہے ،ملکی سیاست میںعدم برداشت کا ایک ایسا طوفان برپا ہے
کہ جس میں کوئی ایک دوسرے سے بات جیت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے ،سیاسی قیادت کو بدلتے حالت میں بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے رویوںمیں تبدیلی لانا ہو گی ،سیاستدان پہلے ملک کو معاشی بحران سے نکالیں پھر سیاست کریں، یہ ملک توسب کا ہے اور اس ملک کو سب نے مل کر ہی بچانا ہے ، اگرملک نہیں تو کچھ بھی نہیں بچے گا