56

سابقہ چیف کو الوداع اور نئے چیف کو خوش آمدید

سابقہ چیف کو الوداع اور نئے چیف کو خوش آمدید

تحریر: ڈاکٹر محمد غیاث ( اسلام آباد)
”مشرقی پاکستان میں فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی۔ سب کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے ”جنرل قمر جاوید باجوہ”ویسے جنرل قمر جاوید باجوہ ایک باہمت اور مستقل مزاج شخصیت کے مالک ہیں۔اس لیے کہ وہ ایک قوم نہیں بلکہ بپھرے و بکھرے ہوئے ہجوم کے چیف آف آرمی سٹاف تھے۔تمام سیاسی فرقے چھ سال تک ان کی ہتھیلی مبارک میں جھومتے رہتے تھے۔

عجب تماشہ تھا ہم نے تو خوب انجوائے کیا۔بعض سیاسی و مذہبی فرقے تو سیاسی کباڑ سمجھتے ہوئے آپ نے ان کو ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بعد کوڑا دان کو ان کا مقدر بنا دیا۔ یاد رہے کہ کسی قوم کا آرمی چیف صرف ان کے ادارے کی حد تک چیف نہیں بلکہ پوری قوم کا اس طرح چیف ہوتا ہے

جیسا کہ وہ کور کمانڈرز کا چیف ہوتاہے۔بہر کیف ان کی مکمل تقریر نصائح اور فرامین کے ساتھ جزوی اتفاق و اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ان کے ایک بات سے میں مکمل اتفاق کرتاہوں اور ایک فرمانِ جلال سے ہزار دفعہ اختلاف رکھتا ہوں۔ میں ان کے مشرقی پاکستان کو سیاسی ناکامی قرار دینے کے ساتھ صد فی صد اتفاق کرتاہوں۔سوال پیدا ہوگا کہ کیوں؟ اس لیے کہ جنگ فوج نہیں جیت سکتی جنگ جیتنا قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے

۔ جنگ بدر میں فوج ابو جہل جیسے مشہورِ دھر جرنیل کی سربراہی میں جنگ ہار گئی تھی اور دوسری طرف ایک قلیل اور بے ٹیکنالوجی فوج قیادت رسول کی طاقت سے جنگ جیت گئی تھی۔ اسی طرح جنگ احد،جنگ احزاب،جنگ تبوک،جنگ حنین وغیرہ میں فوج نہیں قیادت جیت گئی تھی۔ اس لیے کہ اس قلیل فوج کی سیاسی رہنمائی کی قیادت دین اسلام کر رہا تھا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان میں بے قیادت)سیاسیی(فوج اپنوں کے ساتھ برسرپیکار تھی۔اس دوران تمام سیاسی و مذہبی جتھے منظر سے غائب تھے۔

بلکہ سیاسی قیادت تماشہ کر رہی تھی۔ میدان سیاست میں کوئی حقیقی لیڈر موجود نہیں تھا۔ اس وقت دو لیڈروں کی لڑائی تھی ایک طرف شیخ مجیب الرحمٰن اور دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو شہید تھے۔ اصل میں یہ جنگ شیخ مجیب جیت گئے تھے حالانکہ ان کے پاس فوج نہیں تھی۔ اور دوسری طرف لیڈر سمیت سیاسی اور مذہبی جتھے سر بکف لڑنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس دوران قائدانہ کردار یہ تھا

کہ کوئی جرنیل نہ بھی صحیح کوئی ”الرجل” آگے بڑھتے اور مشرقی و مغربی پاکستان کی اس اسلامی قیادت کو سمجھا لیتے،ان کے درمیان صلح)فاصلحوا بین اخویکم(کی صورت بن سکتی تھی۔خان عبد الولی خان بابا نے اس حوالے سے ایک مخلصانہ اور دانشمندانہ کوشش کی تھی لیکن ان کو اہمیت نہیں دی گئی یہاں تک کہ مذہبی جتھوں نے بھی بابا مرحوم کے اس اقدام کو ناکام بنانے کے ہر ممکن کوشش کی

۔ اس لحاظ سے دیکھ لیں تو متحدہ پاکستان کی سیاست کے آسمان پر گہرے بادلوں کے اندر ایک چمکتا ستارہ جنھوں نے مدبرانہ اور قائدانہ کردار ادا کیا تھا وہ صرف ایک بندہ خدا،فرزند پاکستانی گاندھی اور جناب خان عبدالغفار خان کے غرور۔ خان عبد الولی خان تھے۔کاش کہ خان بابا عمران خان جیسا کردار ادا کرکے قوم کو اپنے اس مخلصانہ اور قائدانہ کردار پر متحد کر لیتے۔ تو شاید کہ سقوطِ مشرقِ پاکستان نہ ہوتا۔بہرحال شیخ مجیب کے پاس کوئی فوج نہیں تھی۔ہماری فوج کو شکست مشرقی پاکستان کی فوج سے نہیں ہوئی۔

شیخ مجیب کی قائدانہ صلاحیت نے مغربی پاکستان کو شکست سے دو چار کیا تھا۔یہ روزِ روشن کی طرح آسمان پر چمکتا ہوا سورج گرہن تھا۔اس معاملے میں مذہبی جتھوں اور بعض سیاسی فرقوں کا کردار اور طرز عمل انتہائی قابل دکھ و افسوس رہا۔ اس کو ہم 1957 کی سیاسی اجتہاد کی طرح 1971 کے تقاضوں پر ایک غلط شرعی فیصلہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ مذہبی فرقہ حربی اندھن کے طور پر استعمال ہوا،اس معاملے میں جو لوگ شہید ہوگئے ہیں ان کویقینا اللہ تعالی اجر وثواب دیں گے

۔ لیکن اس اجتہادی فیصلے کی غلطی کو ماننا پڑے گا۔کہ آپ کو اندھن نہیں بننا چاہیے تھا بلکہ ”انما المؤمنون إخوۃ فاصلحوا بین اخویکم” کا کرادر ادا کرنا اس وقت آپ کا فرض عین بنتا تھا۔ اس خطا کی وجہ سے اسی غلطی کے زہر آلود پھل آج تک آپ کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں کھلائے جاتے ہیں۔ اب وقت کا تقاضہ ہے کہ آپ ان قربانیوں پر فخر نہیں بلکہ اپنے ظلم عظیم مان کر توبہ تائب ہوجائے۔
چیف صاحب کی دوسری بات جس کے ساتھ میں ہزار فی صد اختلاف کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ”صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔” اس بات میں اگر پیغام حربی کفار کو ہے تو پھر تو ٹھیک ہے اور اگر اس میں اپنوں کو پیغام ہے تو یہ بات قابل واپسی ہے۔ اپنوں کے لیے صبر کی کوئی حد اسلام میں نہیں ہے۔بالخصوص منصب امارت پر فائز ذی وقار قیادت کے لیے تو صبر کی حد کا تصور بھی نہیں کرنا چاہیے

۔ آپ کو:رحماء بینھم کا مصداق بننا پڑے گا۔ ایک اسلامی جرنیل کے لیے اگر حد و حدود موجود ہیں تو وہ غیرمسلموں کے لئے بھی نہیں بلکہ صرف اور صرف کفار کے لیے متعین ہیں۔مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ?-وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ? اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرٰیہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَانًا?-سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ) القرآن (
اقبال فرماتے ہیں؛
ہو حلقہَ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
یہ بات اگر جانے والے معزز چیف اورآنے والے بے انتہا چلینجز کا استقبال کنندہ چیف آف آرمی سٹاف جان کر سمجھ لیں تو یہ تمام تحدیات)چلینجز(ان کے قدموں تلے دب جائیں گے۔ ورنہ دشمن پاکستان ہر لمحہ اس وطن پاک میں سقوطِ مشرقی بنگال بنانا چاہتے ہیں۔میں جانے والے چیف کو الوداع اور آنے والے محب وطن و محب اسلام چیف کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

سقوطِ مشرقی پاکستان کی صورت میں سخت مار پیٹ اور ڈنڈے کی زبان سمجھنے والی سیاسی قیادت اس شکست کے بعد کچھ سدھر گئی تھی۔ تو انھوں نے اس بے آئین ملک کو 25 سال بعد ایک جامع اور اسلامی آئین بھی منظور کرکے پیش کر دیا تھا۔ اگر یہ قوم سدھر نہ جاتی تو یہ آئین ان کو کبھی نہ ملتا۔اس موضوع پر پھر کبھی لکھوں گا ان شائاللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں