میرے والدین میرے محسنِ عظیم
والدین اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمتِ الہی ہوتے ہیں۔ مجھ سے بعض اوقات لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ ایک طویل عرصے تک جمعیت طلبہ عربیہ اور جماعت اسلامی کے ساتھ رہے ہیں۔ اس دوران ایک ووٹر سے سپورٹر تک اور پھر ایک حامی سے لے کر کارکن تک، اسی طرح مرکزی ذمہ داریوں پر بھی فائز رہے ہیں۔
جب کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میں جماعت اسلامی کے انتہائی اہم فورمز پر بھی شریکِ محفل رہا ہوں۔ مجھے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس جماعت نے آپ کی تربیت کی ہے تو پھر آپ کیوں اس اجتماعیت سے نکل کر شاخِ بریدہ بننا چاہتے ہیں۔
میرا ان سب لوگوں کو جواب یہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے کر رہاہوں تاکہ یہ شاخِ بریدہ ان لکڑیوں کے سٹور سے نکل کر اپنے رب سے مل سکیں۔بہر کیف میں اس تحریک میں فقط تربیت لینے کے لیے شامل نہیں ہواتھا بلکہ تربیت حاصل کرنے کے ساتھ تربیت کرنے اور تزکیہ دینے کے لیے بھی شامل رہا۔ اس حوالے سے میں یہ عرض کروں گا کہ ہر انسان کی پہلی تزکیہ گاہ خاندان کا آغوش ہوتا ہے۔
اس آغوش میں اگر صحیح تربیت ہوجائے تو پھر انسان کے بھٹکنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ میں اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالی نے اس حوالے سے ایک منفرد خاندان دیا ہے اور اس کیاندر بالخصوص میرے والدین میرے لیے میرے اللہ کا خاص اور حسین تحفہ ہیں۔ میرے جسمِ خاکی کی گردن میں توحید کا سریہ فِٹ اور سیٹ کرنے والے میرے والد محترم ہی ہیں۔ جن کی تعلیمات کی وجہ سے غیاث غیر اللہ کے آگے نہ کبھی جھکا ہے اور نہ ہی کبھی جھکے گا باذن اللہ۔
اس معاملے میں میرے والد محترم حضرت لقمان علیہ السلام کے مجسم نصیحت ہی نہیں بلکہ عملی نمونہ بھی ہیں
۔ اسی طرح مجھے اپنے والد محترم؛ استغناء و حق گوئی اور جلال و استقامت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شبیہہ نظر آتے ہیں۔ مجھے ان کے اندر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی روح کی مانند اُجلی روح نظر آتی ہے۔
میں اس معاملے میں والد عظیم کو ایک غیر شعوری ماڈل سمجھتا ہوں۔ لہذا جب بھی کسی مشکل سے سامنا ہو تو میرے سامنے قرآن وسنت کی تعلیمات کے ساتھ ایک زندہ امام بھی موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس حوالے سے بھی میں اپنے والد محترم کو منفرد سمجھتا ہوں کہ اگر کبھی مجھ سے کوئی سماجی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے دل میں ان کو جواب دہی کا احساس مجھے بے چین کر دیتا ہے
۔ بچوں اور اہلیہ کے ساتھ کبھی اگر کوئی مسئلہ آجاتا ہے تو اس معاملے میں میرے اہل خانہ کی بھی آخری عدالت والد صاحب ہی ہوتے ہیں۔ ان کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ہر لمحہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ ان اصولوں کے ساتھ جب بھی میں کوئی چھیڑ خانی کرتا ہوں تو والد صاحب کے لحاظ اور رعب کے سامنے دل کو بہت ملامت زدہ محسوس کرتا ہوا پاتا ہوں۔
ہمارے لیے شادی تک تو اُس اصول کو مدنظر رکھنا ہر لحاظ سے محبت لزومی کا درجہ رکھتا تھا اور اس معاملے میں ہمیں
سزا کے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔ البتہ شادی کے بعد تدریج کے ساتھ انھوں نے ہمیں عقابوں کی طرح اپنے مشن پر لگایا۔ بہر کیف اگر اب بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو میری دنیا میں سب سے پہلے جوابدہی کا احساس جن کے لیے متحرک رہتا ہے وہ والدین ہی ہیں۔زندگی کے اس مرحلے میں کبھی کبھار ان کے بتائے گئے اصولوں میں جب ترمیم کرتا ہوں تو مجھے ان کے لحاظ اور محبت کا خوف ضرور ہوتا ہے
لیتا بھی ہوں اور اگر کسی جگہ موافقت میں مسئلہ درپیش ہو تو میں ان کو اعتماد میں ضرور لیتا ہوں۔ اعتماد میں لینے کی صلاحیت بھی رب کریم کی عنایت سمجھتا ہوں۔ الحمدللہ میں اس اعتقادی تربیت پر اپنے والدین کا ممنون اور رب العالمین کا شکر گزار ہوں۔میرے والدین کی تیسری بڑی خوبی ان کا منفرد ”ذوق انتخاب اور طرز تحقیق” ہے۔ لباس کے انتخاب سے لے کر بڑے سے بڑے انتخاب میں ان کا ذوق، اسلوب اور طریقہ کار بہت منفرد ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اس کو ایک مشکل امر بھی سمجھا جاتا ہے
۔اسی طرح ان کا ذوقِ تحقیق مغربی محققین کے طرز سے ملتا جلتا محسوس ہوتا ہے۔ بے لاگ،بے خوف اور ہر حال میں کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے کیا جاتاہے۔ کبھی تو اس تحقیق کے اندر تجسسِ شرعی اپنے انتہا درجے پر ہوتا ہے۔ تجسس شرعی سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی تحقیق کے نتائج کے حصول کی غرض سے تجسس کے تمام جائز اور بوقت ضرورت ممنوع اوامر میں سے شرعی رخصت سے بھی فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ جس کے اندر اصل جذبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حقیقتِ مجازی اور پھر حقیقتِ حقیقی تک پہنچ سکیں۔ان دونوں صفات میں میرے والدین عام لوگوں سے بہت منفرد پائے جاتے ہیں۔ البتہ یہ خصوصیات والد صاحب کے مقابلے میں والدہ صاحبہ میں نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہیں۔لیکن ان دونوں سے بڑھ کر یہ صفات ان کی اولاد یعنی ہمارے اندر بھرپور انداز میں اب پائی جاتی ہیں۔
اس بات کو ایک دفعہ میرے بھائیوں میں سے ایک بھائی کے ذوقِ تحقیق یا طرزِ تجسس پر تبصرہ کرتے ہوئے میرے والد صاحب نے اس طرح بیان فرمایا تھا کہ ”قیامت کے دن ان کو خوش خبری مل جائے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ تو یہ اُس وقت بھی یہ خود کو کہنے سے روک نہ پائیں گے کہ اے اللہ! اس سے پہلے مجھے ذرا اس جہنم کا نظارہ بھی کروا دیجیے۔”میرے والدین نے دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے حتی المقدور کوشش اور بڑی ہمت کی ہے الحمدللہ۔ بلا شک و شبہ یہ بھی اُسی رب کا خاص کرم ہے
اور وہ نامساعد حالات کی وجہ سے وہ نہیں کرسکے ان کی دعاؤں اور تربیت کی طفیل رب ذوالجلال ہم سے وہ کام لیں گے ان شائاللہ۔رب العزت کی توفیق اور والدین کی دعاؤں سے ہمیں مواقع وافر مقدار میں حاصل ہیں اور مزید بھی وہ مالک عنایت کرے گا ان شائاللہ جس میں ہم اسلام کو اپنے اصل شان اور مقام پر سر بلند وبالا کر دیں گے باذن اللہ۔ میں بھائیوں اور بہنوں میں بڑا ہوں۔اس لیے تربیت کے حوالے سے باقیوں کی نسبت مجھ پر توجہ زیادہ معیاری اور بھر پور رہی ہے۔ میری والدہ مجھے دنیاوی لحاظ سے ایک بڑا اور عظیم شخص دیکھنا چاہتی تھیں جب کہ میرے والد صاحب مجھے دین کے لیے وقف کرنا چاہتے تھے۔
اس حوالے سے ان کا مخلصانہ اور جنون سے مزین جذبہ کار فرما تھا۔ آپ مجھے دینی حوالے سے ایک مجدد دیکھنا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ان قربانیوں میں سب سے چھوٹی قربانی یہ ہے کہ گزشتہ چوبیس سال سے میں ان سے دور رہتا ہوں اور اکثر میری ملاقات کے لیے وہ منتظر ہی رہتے ہیں۔ میں ان کو دنیا بنا کر دے سکتا تھا لیکن انھوں نے دنیاوی سہولیات کی قربانی دے کر قناعت کی زندگی اختیار کی ہے۔مجھے اپنے رب سے امید ہے اور والدین کی دعاؤں پر یقین ہے کہ مجھ سے اللہ تعالی دینِ اسلام کی تجدید اور احیاء کا کام لیں گے ان شائاللہ۔
بلاشبہ یہی میرے والدین کی دیرینہ آرزو ہے۔ میری والدہ کی تمنا کے مطابق اللہ کریم مجھے دنیاوی نعمتوں سے بھی ”مزید” نوازیں گے۔ مزید اس لیے کہا ہے کہ اس وقت بھی میں اپنے آپ کو ”وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوہا” اس آیت کا مصداق سمجھتا ہوں۔ میں نے جہاں کہیں کام کیا ہے اور وہاں سے اپنی تربیت کے لیے کچھ لیا ہے تو اس سے زیادہ دیا بھی ہے۔ اور جہاں سے دیا، آج میں نیآپ کے سامنے ان خزانوں کے منابع کی رونمائی کی ہے۔میں اس لیے کسی جتھے اور فرقے کے سامنے نہیں جھک سکا کہ اس حوالے سے پہلے سے ہی میری گردن کی خودکار فٹنگ، صحیح اور توحیدی مہارت کے ساتھ کی گئی تھی۔
ورنہ میں دیکھ چکا ہوں کہ ان جتھوں کو لوگ منزل تک پہنچنے کے لیے قدموں کے نیچے سیڑھی نہیں سمجھتے بلکہ اس سیڑھی کی چمک دمک دیکھ کر لوگ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اسی طرح اس سیڑھی پر چڑھ کر خدا تک پہنچنے کے بجائے لوگ سیڑھی کو مقدس سمجھ کر اس کو سر پر اٹھا لیتے ہیں
اور اسے ہی دین کی اصل خدمت سمجھتے ہیں۔لہذا ایسے غلط الاعتقاد لوگوں کو منزل نہیں ملے گی بلکہ ان کو بوجھ کا بار ہی ملے گا جس کو اُٹھا کر کولہوں کے بیل کی طرح ”عاملۃ ناصبۃ” کے مصداق چکر کاٹتے رہیں گے۔ جس کے نتیجے میں ان کے مالک کو تیل کے سوا کچھ نہیں ملے گا جب کہ ان کو خود فقط صرف چارا و پانی ملے گا۔میں نے جمعیت اور جماعت میں بھی اوثان و اصنام اور ابقار کی پیروی نہیں کی ہے
بلکہ میں نے رب کریم کی توفیق سے اللہ کے دین پر اپنے والدین کی تربیت کے اصولوں کے مطابق عمل کیا ہے اور کرتا رہوں گا۔اس لیے کہ ان کی کی گئی تربیت دینِ اسلام کے تقاضوں کے مطابق ہے۔دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی میرے والدین کی عمر میں برکت عطافرمائے اور ان کو دنیا و آخرت میں سلامتی عطا فرمائے رب ارحمھما کما ربینی صغیرا آمین