ملک بھر میں ایک جانب اپوزیشن ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا اس قدر شور کررہی ہے کہ حکومتی حلقوں اور غیر جانبدار لوگوں 36

قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی !

قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی !

ملک بھر میں ایک جانب اپوزیشن ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا اس قدر شور کررہی ہے کہ حکومتی حلقوں اور غیر جانبدار لوگوں کو بھی یقین آنے لگا ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہورا ہے یا اس راستے پر جارہا ہے اور دوسری جانب حکومت اپنے تئیں جینوا میں میدان مارنے پر بغلیں بجاتی میدان میں آگئی ہے کہ اس نے اپنی ضرورت سے بھی زیادہ ڈھائی ارب ڈالر حاصل کرلیے ہیں، تاہم اس اعلان میں بھی بہت کچھ پنہاں ہے

،ایک یہ ہے کہ ہمارے حکمران پہلے بھی بہت سارے قرضے لے چکے ہیں ،لیکن ملک مسلسل ڈیفالٹ کی سرحد پر کھڑا ہے ،دوسرا بار بارقرضے لینے کے جو نتائج ہوتے ہیں، وہ خود ہی حکومت اپنی زبانی بتائے جارہی ہے کہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کردیا ہے کہ پاکستان بجلی، گیس ، پٹرول کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں مزید اضافہ کرے ،سبسڈیز ختم کی جائے، حکومت رحم کی بھیک مانگ کر اب سارا بوجھ غریب عوام پرڈالنے کا پروگرام بنارہی ہے جو کہ انتہائی بے رحمانہ اور نا قابل قبول عمل ہوگا۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت حکومت ان دو مسائل میں گھری ہوئی ہے کہ آئی ایم ایف اور ڈونرز سے قرضے لے یا نہ لے،اگر نہ لے تو ڈیفالٹ کی طرف جائے گی اور اگر قرض لیتی ہے تو روٹی سو روپے اور پٹرول تین سو روپے میں دے کر اپنے اخراجات بھی پورے کرے گی اور قرضے بھی اْتارے گی ،

اس صورت حال میںحکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو حکومت پر اعتماد ہی نہیںہے ، عوام نے کبھی ان میں سے کسی پر مکمل اندھا اعتماد نہیں کیا ہے،عوام صرف اچھے اچھے الفاظ کے دھوکے کھاتے رہے ہیں۔ اگر کوئی ایک حکمران بھی عوام میں اپنا اعتماد قائم کردے تو یہ ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا قرض چند برس میں اْتارا جا سکتا ہے۔یہ عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ ان میں سے کبھی حکمران آئے ہیں

نہ عوام کو کبھی انتخاب کا موقع فراہم کیا گیا ہے ،انتخابات کے نام پر پو لیٹکل انجیرنگ کے ذریعے حکمران مسلط کیے جاتے رہے ہیں ،یہ اشرافیہ مقتدر قوتوں کے بنائے گئے سیاسی ٹولے ہیں، ان میں صلاحیت ہے نہ ان پر عوام کا اعتماد ہے ،کیو نکہ یہ جب بھی آئے ہیں، انہوں نے اپنے وسائل کو بروکار لانے کے بجائے قر جوں پر ہی انحصار کرتے رہے ہیں،انہوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر قرض لے کر ملک وعوام پر بوجھ ڈالتے رہے ہیں

یہ سب ہی آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے قرض لیتے رہے اور اپنی حکومت سے باہرنکل کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہے ہیں،پا کستان دسمبر 2022ء تک 130 ارب ڈالر سے زیادہ کا مقروض تھا، اس رقم سے بہت سا پیسہ پچھلے قرضے کی قسط دینے پر خرچ ہوگیا ہوگا، لیکن بہت بڑی رقم پاکستانی حکومت کے خزانے میں بھی آئی، وہ کہاں گئی ہے، یہ اتنی لمبی زبانوں والے حکمران ایک دوسرے کو مود الزام تو ٹھراسکتے ہیں

،مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ انہوں نے اتنی بڑی ر قوم کہاں صرف کی ہیں، یہ ایک دوسرے کو چور، نالائق، نااہل، ملک دشمن، غدار کہنے والے کبھی اپناحساب دیتے ہیں نہ ہی اپنا احتساب ہونے دیتے ہیں،لیکن پاکستانی عوام کے بھی کیا کہنے ہیں، وہ ان کی اصلیت دیکھ کر بھی اپنے اپنے ہیرو کے سحر میں مبتلا رہتے ہیں۔
حکمران قرض پر قرض لے کر عیش و اقتدار کے نشے میں بدمست ہیں اور اس سارے قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈالا جارہا ہے،حکمران قیادت قرض لینے کی فکرمیں مبتلا ضروررہی ہے ،مگر انہیں قرض اتارنے کی کوئی فکر نہیں ہے،اس ملک میں عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیںاورحکمران طبقات ان پر سوار ہو کر حکومت کرتے ہیں اور قرض لیتے رہتے ہیں، اگرقرض لے کر ترقیاتی منصوبے شروع کیے جاتے تو ملک آگے بڑھ سکتا تھا،لیکن اس ملک میںنوے فیصد قرض غیر ترقیاتی کاموں میں لگایا جاتارہا ہے

اس کے باعث قرضوں کی واپسی تو درکنار ہم سود ادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہے ہیں،اس وقت حالت یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑرہاہے، اس سے زیادہ قابل رحم بات کیا ہو سکتی ہے؟ قر ضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی آزادی اور خود مختاری سے محروم ہو تا جارہاہے

اس قدر حالات گمبھیر ہیں کہ آئی ایم ایف کے دبائوپر مشکل اور غیر عوامی فیصلے کرنا پڑرہے ہیں، اگر پاکستان کے قرضے اسی طرح بڑھتے رہے تو ایٹمی پروگرام سالمیت بھی خدانخواستہ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
پاکستانی قیادت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کرنا ہو گا،یہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے اور اس میںبڑے عہدوں پر موجود افراد بعد از ریٹائرمنٹ سہولیات اور مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، دوسرا حکمران اشرافیہ ٹیکس ہی نہیں دیتی ہے اور غریب عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جارہاہے ،اس ملک میں اب تک کے لیے گئے قرضوں اور اس کے مصرف پر اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن بنا یا جاناچاہیے

جو کہ تحقیقات کرے کہ قرض کیوں لیا گیا اور کہاں خرچ کیا گیا ہے،اس تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہوئے ان کی منقولہ غیر منقولہ جائیدادیں ضبط کی جانی چاہئے،حکومت جب تک اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے قرض لے کر قرض اتارنے کی پا لیسی پر گامزن نہیںہوگی ،ملک وعوام کبھی ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکیں گے ، حکمرانوں کی نیت صاف ہو تو پاکستان کا سارا قرض صرف ایک برس میں بھی اتارا جا سکتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں