36

انتخابات قبل از وقت ہو سکتے ہیں !

انتخابات قبل از وقت ہو سکتے ہیں !

تحریک انصاف قیادت نے دو صوبوں میں اپنے اقتدار کے خاتمے کا فیصلہ پی ڈی ایم حکومت کو اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے پہلے ہی وفاق سمیت ملک بھر میں عام انتخابات پر مجبور کرنے کیلئے کیا ہے،لیکن اگر اس کے باوجود حکمران اتحاد عام انتخاباب کروانے سے گریز کرتے ہیں تو سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے

کہ پھر وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی کارروائی عمل میں لائی جائیگی،اس وقت وفاق میں برائے نام اکثریت کی بنیاد پر کثیرالجماعتی حکومت قائم ہے اور کسی بھی اتحادی کی جانب سے ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ اسکے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے، اگرچہ معیشت کی بحالی کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے بظاہر جس تندہی سے کوششیں کی جارہی ہیں، اس کی بنا پر قومی مفاد کا تقاضا تو یہی نظر آتا ہے کہ اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے،

تاہم اگر ایسا نہیں ہوتاہے اور اعتماد کا ووٹ لینے کے مطالبے کے بعد اس میں وزیر اعظم شہباز شریف کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو عام انتخابات وقت سے پہلے بھی ہوسکتے ہیں۔
تحریک انصاف قبل از وقت ملک بھر میں عام انتخابات کے مطالبے کو پورا کرنے کی راہ پر گامزن ہے ،

اس حوالے سے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دیگر آپشن پر بھی غور کیا جارہا ہے ،جبکہ پی ڈی ایم رہنمائوں کا کہناہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی خالی کردہ نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرا لئے جائیں گے ، ملک میں عام انتخابات مقررہ وقت پرہی ہوں گے ،تاہم یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کے 70فیصد حصے میں عام انتخابات سے چند ماہ پہلے صوبائی اور ضمنی انتخابات کر ادیئے جائیں گے اور پھر چند ماہ بعد قومی اسمبلی کے انتخاب کا انعقاد کیا جائے گا ؟ ملک اتنے تھوڑے عرصے میں دو انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے نہ موجودہ معاشی بحران میں ان انتخابات پر اتنے اخراجات کئے جا سکتے ہیں،اس لیے ایک ہی بار عام انتخابات کی جانب جانا ہو گا۔
حکمران اتحاد ایک طرف عام انتخابات سے گریزاںہیں تو دوسری جانب باور کروانے میں کوشاں ہیں کہ انہیں اسمبلیوں کی تحلیل سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،یہ اتحادی قیادت کا کہنا درست نہیں ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں سے کوئی فرق پڑے گا نہ کوئی سیاسی بحران میں اضافہ ہو گا، اس وقت ملک میںسنگین معاشی بحران کے ساتھ ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہوچکا ہے

، موجودہ حکمراں اتحاد کے پاس عام انتخابات میں جانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ، اگرچہ حکمران اتحاد قبل از وقت انتخابات کرانے کیلئے تیار نہیںہیں،لیکن اب ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسراراستہ بھی نہیں رہا ہے ، قبل از وقت انتخابات کرانا آئین کے خلاف بھی نہیں ہے

،اگر اس وقت کے بدلتے حالات میںپی ڈی ایم قیادت قبل از وقت انتخابات کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ بھی پی ٹی آئی کو ہی ہو گا۔تحریک انصاف قیادت ایک طرف صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد قومی اسمبلی میں نگران سیٹ اپ کیلئے واپس جاننے کا اشارہ دیے رہے ہیں تو دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا عندیہ بھی دیا جا رہاہے ، پی ٹی آئی قیادت حکمران اتحاد کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے مجبور کررہی ہے کہ وہ ملک میں عام انتخابات کا اعلان کرے

،ملک میں جہاں اپوزیشن کی جانب سے دبائو بڑھتا جارہا ہے ،وہیں بیرونی دبائو بھی اضافہ ہونے لگا ہے کہ معاشی امداد کیلئے پہلے ملک میںسیاسی استحکام لایا جائے ، تاہم رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی جو مرضی کرلے عام انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے ،جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں عام انتخابات اپرل کے مہینے میں ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں ،یہ عام انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہو گا

،جبکہ مقتدر حلقے سیاست میں عدم مداخلت کا عندیہ دیے چکے ہیں ۔ملک میں عام انتخابات اپنے وقت پر ہوں یابدلتے حالات میں قبل از وقت کروائے جائیں ،لیکن جب تک سیاسی محاز آرائی کا خاتمہ نہیں ہو گا ،ملک میں سیاسی و معاشی استحکام نہیں لایا جاسکے گا،اس صورتحال میںبہتر حکمت عملی تو یہ ہونی چا ہئے کہ سیاسی قیادت مل بیٹھ کر جہاںمنصفانہ انتخابات پر اتفاق رائے پیدا کرے ،وہیں یہ اتفاق بھی پیدا کیا جائے

کہ انتخابات کے نتائج قبول کئے جائیں گے ،تاکہ ملک عملی طور پر بحرانوں کی کیفیت سے باہر نکل سکے،اگر ہم نے واقعی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو پھر اپنے ذاتی وسیاسی مفادات سے باہر نکلناہوگا، یہ سیاست میں مسلسل ٹکراو کی پالیسی قومی مفاد میں نہیں ہے ،اب بھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے ، سیاسی محاذآرائی کے خاتمے کیلئے انتخابات قبل از وقت بھی کروائے جاسکتے ہیں،اگر سیاسی جماعتوں نے ذمے داری کا مظاہرہ نہ کیا اور آپس میں ٹکراو یا عدم اعتماد کی پالیسی کو ایسے ہی جاری رکھا تو اس کا فائدہ پھر سیاسی وجمہوری قوتوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کو ہی ہوگااور ایک بار پھرسیاسی قو تیں خالی ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں