سیاسی جھگڑے میں غیرجمہوری حادثہ !
کہ پلی بارگین کرنے والے سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے،جبکہ تحریک انصاف قیادت بھی سخت برہمی کا اظہار کررہی ہے ،سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہناہے کہ ہمارے ازلی دشمن کو نگراں تعینات کردیاگیا ہے، اس فیصلے کے خلاف عدالت جائیں گے اور ملک بھر میں احتجاج بھی کیا جائے گا، پی ٹی آئی کی ایجی ٹیشن یا عدالتوں میں معاملہ لے جانیکا کیا نتیجہ نکلتا ہے، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا ،لیکن پنجاب اسمبلی کا الیکشن انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ضرور بنا دیاگیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تویہ مسئلہ صرف نگراں وزیراعلیٰ کا نہیں ہے، بلکہ ملک کی تین سیاسی جماعتوں میں لڑائی صرف یہ ہے کہ ہم حکومت میں ہوں توسب کچھ ٹھیک ہے اور اگر ہم باہر ہوں تو سب خراب ہے، ہماری پسند کا آدمی آگیا تو ٹھیک دوسرے کی پسند کا آئے گا تو سب غلط ہے، آخر ہمارا حکمران طبقہ کب اس قسم کے جاہلانہ طرز عمل کو ترک کرے گااورہمارے ادارے بکب تک سب کچھ نظرانداز کرتے رہیں گے
، پنجاب کے وزیراعلیٰ کا انتخاب سب کے سامنے ہے، اس سے قبل قومی اسمبلی ، اسپیکر کے مسئلے پر، بلوچستان کے مسئلے پر ،سینیٹ چیئرمین کے مسئلے پر، تقریباً ہر معاملے میں جس کو جتنا اختیار اور طاقت ملی، وہ اپنے مطلب کے فیصلے کرتا اورکرواتا آ رہا ہے،ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی پاکستانی سیاست بدنام ہے اور ملک بھی بدنام ہورہا ہے، اس کی کوئی پرواہ ہے نہ کوئی احساس ہے ، ان سب کا مرکز و محور صرف اقتدار ہے اوراس کیلئے سب جائزو ناجائزکیاجارہ ہے۔
یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے
کہ حصول اقتدار کیلئے جس کا جتنا بس چلتا ہے کر گزرتا ہے ، پی ٹی آئی نے بھی اپنے دور میں دوسری جماعتوں کے ارکان توڑے تھے، لیکن جب ان کے ارکان توڑے گئے تو یہ غیر جمہوری عمل ہوگیا ،یہ ہی حال مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کا رہاہے ،یہ جب دوسروں کے لوٹے خریدتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے، لیکن جب ان کے اپنے ارکان لوٹا بنتے ہیں تو انہیں انتہائی تکلیف ہوتی ہے
آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ قانون اور آئین کی پابندی کے بجائے اس کی پامالی پر یقین رکھتے ہیں اوراس عمل کو روکنے کے بجائے جاری رکھے ہوئے ہیں، آجکل نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے مسئلے پر جو کچھ ہورہا ہے، اس کا مقصد یہ نہیںہے کہ اعتراض کرنے والے یا تقرر کرنے والے حق پر ہیں ،بلکہ تقرر کرنے والے انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں اور اختلاف اور اعتراض کرنے والے بھی انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں،محسن نقوی پر پلی بارکین کا الزام کا ذکر تو ایسے کیا جارہا ہے
کہ جیسے ساری سیاست میں پہلا فرد ہے کہ جس نے کوئی پلی بارکین کی ہے،اس ملک میںتو ایسے لوگ بھی ہیں،جو کہ مجرم قرار پانے کے باوجود وزیراعظم، سینیٹراور وزیر مشیر سب کچھ بن جاتے ہیں، اس حمام میں سب ہی گندے اور ننگے ہیں ،انہیں کوئی روکنے والا ہے نہ کوئی پو چھ رہا ہے۔
اس ملک میں جس کا جتنا دائو لگتا ہے ،لگائے جارہا ہے،لیکن ماننے کیلئے تیار نہیں ہے ،یہ خود کو پارسا اور دوسرے کو کرپٹ قرار دینے میں لگا ہے ،آج کے حکمران سابقہ کو مود الزام ٹھراتے ہیں اور کل کے آج پر الزام تراشیاں کررہے ہیں
،جبکہ دونوں نے ہی اپنے ادوار میںاپنے خلاف ریفرنس واپس کروائے اور قانون ایسے تبدیل کیے ہیں کہ صبح کا چور شام کو معزز ہوجاتا ہے، ایسے میں سوال پیدا ہوتاہے کہ سارے ادارے کیا کررہے ہیں، عدالتوں میں تو زیادہ تر پیشیاں اور سماعتیں ہی ہوتی نظر آتی ہیں ،معاملات سلجھتے نظر نہیں آرہے ہیں،اب نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر بھی قوم کا وقت ہی ضائع کیا جائے گا، آخر کون سا ایسا فرد نگراں بنایا جائے گا ،جو کہ ملک میں ایماندار ترین ثابت ہوجائے،یہاں تو جو آتا ہے یالایا جاتا ہے، ایک سے بڑھ کر ایک اپنوں کیلئے دودھ کا دھولا اور دوسرے کیلئے کرپشن میں لتھڑا ہی ہوتا ہے۔
پا کستانی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ یہاں الیکشن کمیشن کے فیصلے سے لے کر انتخابی نتائج تک کوئی ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ، اس رویئے کے ساتھ آگے کیسے بڑھا جاسکتا ہے،اگر معاملات کو مزید بگاڑ کے بجائے سلجھاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے تو پی ٹی آئی قیادت کو ایک نئی بحث چھیڑنے اور معاملات کو مزید الجھانے کی بجائے انتخابات کی تیاری پر توجہ دینی چاہیے،ملک اور صوبے کو درپیش مسائل کی وجہ سے عوام پہلے ہی انتہائی پریشان حال ہیں، یہ سیاسی رسہ کشی ان کی پریشانیوں میں مزید اضافے کا باعث بنتی جا رہی ہے ، ملک کی سیاسی قیادت کو اب غیر سنجیدگی چھوڑ کر عوامی معاملات پر توجہ دینی چاہیے کہ جن کی مدد سے قومی اور عوامی مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے،اگر سیاسی قیادت نے اپنی روش نہ بدلی تواس سیاسی جھگڑے میںغیرجمہوری حادثہ بھی ظہور پذ یر ہوسکتا ہے ،جوکہ سیاست کے ساتھ جمہوریت کے لیے بھی انتہائی نقصاندہ ثابت ہو گا