ریاست بچانے کے دعویدار سیاست بچانے لگے !
تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دیئے تو سیاسی حلقوںکے ساتھ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی اسمبلی میں واپس جانے اور امور مملکت میں حصہ لینے کا مشورہ دیا جاتا رہا ہے، حکومت بھی حیلے بہانوں سے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کرنے میں لیت و لعل سے کام لی رہی ہے، مگر تحریک انصاف نے جب اپوزیشن کا کردار ادا کرنے اور قومی اسمبلی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا
توسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے یکِ بعد دیگرے استعفے قبول کرنے کی منطق ناقابل فہم ہے،اس سے تحریک انصاف کو واویلا کرنے کا موقع مل رہا ہے کہ حکومت اپنی مرضی کی نگران حکومت لانا چاہتی ہے کہ جس سے آئندہ الیکشن کی شفافیت کے بارے میں مشکوک و شبہات پیدا ہوں گے،ماضی میں بھی نگران حکومتوں کی مداخلت کی وجہ سے انتخابی نتائج متنازع اور سیاسی عدم استحکام رہاہے
،اس لیے بہتر ہو تا کہ حکومت سیاسی فائدے کے لیے ایسے اقدام سے اجتناب کرتی، تاکہ عام انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنا کر نتائج کو غیر متنازع بنایا جا سکتا،لیکن حکومت انتخابات میں شفایت لانا تودرکنار، انتخابات کرانے سے ہی مسلسل گریزاں نظر آرہی ہے۔ اس وقت سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال مسلسل گردش کررہا ہے کہ ملک میں آنے والے دنوں میںآگے کیا ہونے والا ہے؟ ملک میں وہی ہوگا ،جو کہ اللہ سبحان چاہیں گے اور اللہ تعالی اپنی پیاری مخلوق کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ ہے،
، جبکہ چوہدری پرویز الٰہی کہتے نظر آتے ہیں کہ مقتدر حلقے قبل ازوقت انتخابات کے حق میں نہیں ہے، اس کے باوجودعمران خان بڑی مزاحمت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ملک بھر میں قبل از وقت عام انتخابات کرواکر ہی رہیں گے۔تحریک انصاف قیادت تمام تر انتقامی کاروئیوں کے باوجود حکمران اتحاد پر دبائو بڑھائے چلی جارہی ہے ،اتحادی حکومت بوکھلاہٹ میں کبھی عوام مخالف فیصلے کررہی ہے تو کبھی سیاسی مخالفین کو گرفتار کرکے جوابی وار کرنے کی کوشش کررہی ہے
تحریک انصاف قیادت بار بار حکمران اتحاد کو عوام کی عدالت میں جانے کا چیلنج دیئے جارہی ہے ،مگر حکمران اتحاد اسے قبول کر نے سے گریزاں ہے ،کیو نکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام کا فیصلہ ان کے خلاف آئے گا ،گزشتہ ضمنی انتخاب اور پنجاب کی تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ سب کے سامنے ہے
،حکمران اتحاد میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ( ن)کو ہی اُٹھانا پڑرہا ہے ،آئندہ آنے والے انتخابات جب بھی ہوں گے ،اس میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے لیے صرف مریم نواز کی وطن واپسی کافی نہیں ، شریف خاندان کو سیاسی محاذ پر متحد ہونا پڑے گا، ورنہ مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔
مسلم لیگ( ن) قیادت ایک طرف اپنی سیاست بچانے میں لگی ہوئی ہے تو دوسری جانب وزیرے اعظم شہباز شریف دعوئے کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ ریاست بچانے کیلئے اپنی سیاست بھی قربان کر دیں گے ، مگر اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں ، یہ مقتدر حلقوں کی خوشنودی کیلئے تو اپنے سیاسی مخالف سے اتفاق کر سکتے ہیں،
کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر کسی انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکے گی ،اس لیے آئی ایم ایف کی ساری باتیں مانتے ہوئے عوام پر سارا بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کرچکی ہے ، عوام کاپہلے ہی بڑھتی مہنگائی کے باعث جینا عذاب ہے ،اُوپر سے مزید مہنگائی کا بوجھ ڈال کر حکمران مرے عوام کا کفن بھی چھننا چاہتے ہیں ،حکمران ریاست نہیں ،اپنی سیاست اور اقتدار بچانا چاہتے ہیں ،لیکن عوام پر اپنی ناہلیوں کا بوجھ ڈال کر کبھی اپنی سیاست واقتدار بچانہیں پائیں گے۔