سیاسی محاز آرائی کیا رنگ لائے گی؟
ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اورمعیشت وینٹی لیٹر پر ہے ، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں کچلا گیا ہے، آٹے کے بحران نے غریب کی دو وقت کی روٹی مشکل بنا دی ہے، ڈالر روز بروز مہنگا ہو رہا ہے، سونا تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر کوئی حل تلاش کر نا چاہئے ،مگردونوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں ، سیاسی محاذ آرائی کے نئے دروازے کا کھولے جارہے ہیں ،یہ محاز آرائی کیا رنگ لائے گی ؟ اس محاذ آرائی سے دونوں کو کچھ حاصل نہیںہوگا ،البتہ کوئی تیسرا ضرور فائدہ اُٹھاجائے گا۔
اس میں شک نہیں کہ ملک میں سیاسی محاز آرائی و انتشار سے ہی بے یقینی کا ماحول پیدا ہوا ہے ،اس نے سماج اور معیشت کوبھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،اس مایوس کن فضا کا خاتمہ قومی مسائل کے علاج کا پہلا قدم ہے اور یہ ابتدا سیاسی ہم آہنگی سے مشروط ہے ،اس کا ادراک سیاسی حلقے جتنا جلد کر یں گے ،اتنا جلد ہی ان مسائل سے نکلا جاسکتا ہے ،حکومت وقت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے
کہ حالات کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سیاسی محاذ آرائی کے بجائے افہام وتفہیم سے معاملات سلجھانے کی کوشش کرے ،لیکن اس کے برعکس انتقامی سیاست کے زیر اثر معاملات میں بگاڑ پیدا کیا جارہا ہے ،اس کا جہاں حکومت کو نقصان ہو گا ، وہیں اس کا خمیازہ ملک و عوام کو بھی بھگتنا پڑ ے گا۔
ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی بدحالی کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے ، حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے ،وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام آگے بڑھانے کیلئے ہمیں مزید سخت فیصلے کرنا پڑیں گے
،لیکن اس کا عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا،اگر دیکھاجائے توگزشتہ75 برس سے حکمرانوں کے سخت فیصلوں کا بوجھ ایک عام پاکستانی ہی برداشت کرتا چلا آرہا ہے،ملک میں کوئی بھی ناگہانی صورت ہو یا معیشت ڈگمگائے، قربانیاں ایک عام پاکستانی ہی سے مانگی جاتی ہیں اور قومی خزانوں پر قابض سیاسی و معاشی اشرافیہ کا بال تک بیکا نہیں ہوتا ہے،اب وزیراعظم شہباز شریف نے منی بجٹ لانے اور بجلی وگیس کے نرخ بڑھانے کی اصولی منظوری دی ہے تو مزید مہنگائی کا ایٹم بم بھی بے چارے عوام پر ہی گرے گا۔
عوام کل بھی مہنگائی بے روز گاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ، عوام آ ج بھی حکمران اشرافیہ کی نااہلیوں کا سارا بوجھ اُٹھانے پر مجبور ہیں ،ملک میں سیاسی استحکام بغیر افہاو تفہیم آئے گا نہ معیشت کی بحالی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے ممکن ہو سکے گی، اس کے لیے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا ،
ایک دوسرے کے ساتھ بے جا محاذ آرائی کے ماحول کا خاتمہ کرنا ہو گا ، الیکشن کمیشن کو جہاں شفاف انتخابات کی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی ،وہیں حکومت کو انتقامی کاروائیوں کے ساتھ بے جا گرفتاریوں سے بھی ہاتھ کھینچنا ہو گا، اس طرح ہی سیاسی استحکا م اور قومی یکجہتی کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے،بصورت دیگر سیاست میں بڑھتی محاذ آرائی کوئی اچھا رنگ نہیں دکھائے گی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ ملک میں سیا سی محاذ آرائی کے نتائج کچھ اچھے نہیں نکلیں گے ،اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ تمام اختیارات والے اپنے اپنے اندر جھانکیں اور ایک دوسرے کیخلاف ذاتی پرکاش کے زنگ کھرچ کر اپنے روئیوں میں ربدلی لانے کی کوشش کریں،کیونکہ اگر ملک ہے تو سب کی سیاست بھی چلے گی، ورنہ ملک کے معاشی دیوالیہ ہونے کی صورت میں سیاست بچے گی نہ ریاست بچا پائیں گے،
ایک افراد تفریح کا ماحول ہوگا اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ملک انارکی کی طرف چلاجائے گا اور پھر فیصلہ منتشر ہجوم ہی ہر سطح پر کر تا نظر آئے گا، کیونکہ جب کسی کو دو وقت کی روٹی نہیں ملے گی، اس کے بچے آنکھوں کے سامنے بھوک سے تڑپ رہے ہوں گے تو کوئی سیاست و معیشت کا فلسفہ نہیں سنے گا، بلکہ انتقام کی آگ میں جل رہا ہوگا ،اس کے انتقام کے نشانے پر حکمران اشرافیہ ہی ہوں گے اور عوام کے انتقام سے اشرافیہ کو کوئی بچا بھی نہیں پائے گا۔