پھر وہی دہشت گردی ، پھر وہی لہو لہان !
پا کستان میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے دشمنوں نے چاروں طرف سے ہلہ بول دیا ہے ، ایک طرف معاشی طور پر مفلوج کیا جارہا ہے تو دوسری جانبدہشت گردی کی لہر میں یکدم سے تیزی آگئی ہے ،ملک میں یک بعد دیگرے دہشت گردی کے ایسے موقع پر واقعات ہو رہے ہیں کہ جب عالمی مالیاتی اداروں نے پا کستان کی کمزور معاشی صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایسی شرائط ماننے پر مجبور کردیا ہے کہ جس کا نتیجہ کسی صورت اچھا نکلتا نظر نہیں آرہا ہے ،ایسے میں تھانہ پو لیس لائنز پشاور کی مسجد کے اندر خودکش دھماکہ پا کستان کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کے منصوبے کا حصہ ہی ہو سکتا ہے ۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے، اس میں پاک فوج، پولیس اور عام شہریوں نے ہزاروں جانیں قربان کی ہیں ، دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کے بعد ایک عام تاثر قائم ہواتھاکہ دہشت گردی کا خاتمہ کردیا گیا ہے ،لیکن ایک بار پھرسے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں تیز دکھائی دینے لگی ہے
، اس کی ایک وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے اور اپنے عسکریت پسندوں کے ذریعے ملک گیر حملے دوبارہ شروع کرنا ہیں،اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہے
کہ طالبان حکومت جہاں اپنا وعدئے پورے کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے، وہیں ہماری حکومت کے ساتھ سیکورٹی ادارں کی کوتاہی بھی نظر آتی ہے کہ جس کے باعث حساس جگہوں پر بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دکھائی دیے رہا ہے۔دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابیوں کے ضائع ہونے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں،اس دہشت گردی کے دوبارہ سر اُٹھانے میں جہاں حکومت کی سستی اور سکیورٹی سے متعلقہ معاملات سے غفلت برتنا ہے،
وہیں افغان پالیسی بھی کارفرما رہی ہے کہ جس نے ٹی ٹی پی کو دوبارہ منظم ہونے کے قابل بنادیا ہے ، ٹی ٹی پی ہی سر حد پار کے ساتھ اندرون ملک بھی دہشت گردانہ کروائیاں کررہی ہے اور افغان حکومت انہیں روکنے میں ناکام نظر آتی ہے ،افغان طالبان حکومت ماسوائے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے پا کستان حکومت کی کوئی مدد نہیں کر پائے ہیں ،
پاکستان حکومت کے ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ تقریباً چھ معاہدے امن کے حصول میں ناکام رہے ہیں،ایک طرف پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کچھ ناخوشگوار معاملات چلتے آ رہے ہیںتو دوسری جانب بھارتی سر پرستی میں ٹی ٹی پی نے سر حد پار سے اپنی کاروائیوں سے باز نہیں آرہی ہے ، پا کستانی حکومت اور سیکورٹی اداروں کومل کر جہاں افغان طالبان سے معاملات کو سلجھاناہے، وہیں اندر و ن ملک دوبارہ متحرک ہوتے دہشت گردوںاور ان کے سہولت کاروں کو بھی کیف کردار تک پہچانا ہے، اس خطے میںدہشت گردی کے سدباب سے ہی قیام امن کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
اس وقت ہمیں دہشت گردی کی جس صورتحال کا سامنا ہے، اس نے پورے ملک میں ایک بار پھر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے ، پھر وہی دہشت گردی ،پھر وہی لہو لہاں دکھائی دیتا ہے ،گو کہ ہمارے سکیورٹی کے ادارے منظم، مستعد اور بھرپور مہارت کے ساتھ دہشت گردی کے عفریت کے خلاف سرگرم عمل ہیں، لیکن عوام الناس کو بھی اسی جذبے کے ساتھ ان کی پشت پناہی کرنا ہو گی،ہمارے سماج میں دہشت گردوں کے باقیات کے ساتھ ان کے سہولت کاربھی موجود ہیں ، ہمیں جہاںان پر نظر رکھنا ہو گی ،
وہیںایسے مشکوک افراد کے خلاف متعلقہ اداروں کو اطلاع بھی دینا ہو گی، معاشرے کی سطح پر اس نہج پر کام کرنے سے سکیورٹی اداروں کا کام آسان ہو جائے گا اور دہشت گردی پر قابو پانا بھی ممکن ہو سکے گا، اس حوالے سے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،یہ وقت سیاسی تقسیم کا ہے نہ ایک دوسرے کو مود الزام ٹہرانے کا ہے ،اس مشکل وقت میںقومی یکجہتی سے ہی دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کیاجا سکتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کا استحکام دہشت گردی کے خاتمہ سے جڑا ہے ،لیکن حکمران قیادت اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں ،پشاور سانحہ میں ایک بڑی تعداد میں لوگ لہو لہان ہوئے ہیں ،لیکن حکمران قیادت دہشت گردی کی مزمت کرتے ہوئے بھی انتخابات ملتوی کروانے پر زیادہ زور دیتے نظر آتے ہیں ، پشاور میں جاں بحق ہونے والے لوگ ملک پر قربان ہوئے ہیں
،ان کی قربانی کو کسی صورت اقتدار کی سیاست میں رائیگاں نہیں جانی چاہئے،سکیورٹی ادارے پشاور کے لہولہان ہونے پر تحقیقات کررہے ہیں ،لیکن انہیں دہشت گردی کے واقعہ کی تحقیقات کے ساتھ سیکورٹی کوتاہیوں کی بھی تحقیقات کرکے سدباب کرنا چاہئے، کیو نکہ دہشت گردی کے ایک بار پھر سر اُٹھانے سے پا کستان کی ساکھ بھی متا ثر ہوئی ہے ، حکومت اور سیکورٹی ادارے اپنی کوتاہیوں پر قابو پا کر ہی دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اور پا کستان کی ساکھ ایک بار پھر سے بحال کر سکتے ہیں