34

آئین، حلف اور پاکستان

آئین، حلف اور پاکستان

تاج رسول طاہر

آئین کسی بھی ملک کے حکومتی, قانونی،سماجی، تنظیمی،اداراتی اور سیاسی کردار کے لیے ایک راستے کا تعین کرتا ہے جس پہ عمل کرنا اس ملک کے ہر شہری کا خواہ وہ کسی بھی حیثیت میں ہو ضروری ہوتا ہے۔
سرکاری ملازمت میں بلکہ سرکاری خدمات کے ہر شعبے میں ہر شخص اسی آئین کے تحت حلف اٹھاتا ہے کہ میں اپنے فرائض منصبی نہایت ایمانداری سے بغیر کسی اقربا پروری اور ذاتی فوائد کے انجام دونگا۔ میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گا جو آئین پاکستان کے خلاف ہو۔ ساتھ ہی وہ اپنے دین کو بھی اس حلف میں گواہ بناتا ہے۔
پھر ایسا کیا مسئلہ ہوتا ہے کہ چند دنوں میں نہ آئین یاد رہتا ہے اور نہ دینی گواہی؟ ہر وہ کام کیا جاتا ہے جو آئین اور مذہب کے الٹ ہو۔
آئین ساز اور اس کے پاسباں شروع دن سے ہی اس میں موجود کمزوریاں اور باریکیاں ڈھونڈ کر اسے بے وقعت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ آئین کی شق ایک ہے لیکن اسے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے بہت جو اپنی مرضی کا مفہوم نکالتے ہیں گویا آئین و قانون موم کی ناک ہے

جسے جدھر موڑنا چاہیں موڑ لیں۔ ایک ہی عدالتی کیس میں ایک ہی آئینی پٹیشن پر وکلا الگ الگ موقف لیے ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ جب آئین اور قانون اتنا واضح ہے تو اس میں اختلاف کس چیز کا۔ جس کا بیان سنیں یہی کہتا ہے کہ ہم نے آئین کے تحت حلف اٹھایا ہوا ہے۔

آخر یہ تو پتہ چلے کہ حلف کس بات کا اٹھایا ہوا ہےآئین پہ عمل نہ کرنے کا؟سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے حلف عدولی کا؟ رشوت لے کے لوگوں کے جائز کام کرنے کا؟ جن لوگوں کے ٹیکسوں کے پیسے پر پلتا ہے انہیں اپنے دفاتر میں چکر لگوا کر ذلیل کرنے کا؟سیاسی نمائندہ ہے تو ووٹ بیچنے کا؟ فوجی ہے

تو سیاست میں مداخلت کرنے کا، ایک ادارے کا سربراہ ہوتے ہوئے آئین کو منسوخ کرتے ہوئے حکومت پر قبضہ کرنے کا؟شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے بد نیتی اور رقوم لے کر غلط فیصلے کرنے کا، ایک معاشی ترقی کرتے، چلتے ہوئے اپنے وطن کو کھلنڈرے لوگوں کے حوالے کرکے بدحال کرنے کا؟
کاش تم نے حلف لیا ہوتا ” میرے وطن کی کسی بھی اکائی کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کو اسکے برے انجام تک پہنچانے کا، رشوت خوروں، بدکرداروں، ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو سر عام سزائیں دینے دلوانے کا، ملک میں قانون کی عملداری کا”۔
لیکن حیف!
آپ تو اپنے وطن کے آئین سے، اپنے آپ سے اور اپنے ٹیکسوں سے آپ کا پیٹ بھرنے والوں سے بھی مخلص نہیں نکلے۔
آپ لوگوں نے تو آئین کو مذاق اور حلف کو کھیل سمجھ لیا ہے۔
ایسی صورت میں آپکا احترام، عزت اور پروٹوکول اس ملک کے کمزور لیکن مخلص لوگوں پر واجب ہے؟
ذرا سوچئیے اور اپنے آپ سے پوچھئے گا” اپنے ضمیر کو سامنے بٹھا کے اگر وہ ابھی زندہ ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں