41

ملک کا کوئی والی وارث ہے !

ملک کا کوئی والی وارث ہے !

پاکستان کے حالات روز بروز سنگین ابتری اور بدحالی کی جانب جا رہے ہیں،ریاست کی ناکامی اور عوام کی بدحالی کی ذمہ داری کوئی قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہے،سیاسی دھینگا مشتی میں مصروف حکومتِ وقت امن و امان کی صورتِ حال پر توجہ دے رہی ہے نہ ہی مہنگائی بے روزگاری کا خاتمہ ان کی ترجیح میں شامل ہے،

عوام مہنگائی کی چکی کے دونوں پاٹوں میں بری طرح پس رہے ہیں ،غریب عوام کی چیخیں عرش تک پہنچ رہی ہیں ، اگر کسی کوسنائی نہیں دے ر ہی ہیں تو وہ ہمارے حکمران ہیں، جو کہ اپنی کرسی کی بقا کی جدو جہد میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس ملک و عوام کے مسائل کی جانب دیکھنے کا وقت ہی نہیں ہے ،اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے ملک و عوام کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہے۔
اگر دیکھاجائے تواس بار حکمران اتحاد نے بھی قوم کو بری طرح مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں دیاہے، ڈار آئے گا اور ڈالرز لائے گا ،ڈار آئے گا ،ڈالر کی پرواز نیچے لائے گاکے سارے نعرہ جھوٹے اور وقتی دلاسے ہی ثابت ہوئے ہیں، اتحادی حکومت ملکی حالات میں کوئی بہتر ی لا سکی نہ عوام کو کوئی معمولی سا ریلیف دیے پائی ہے ،

اتحادی حکومت نے اب تک اپنے مقدمات ختم کرواکر اپنا سیاسی مستقبل اور قوم کا حال ہی تاریک کیا ہے، ملک اب تک دیوالیہ ہوا یا نہیں، لیکن اس حکومت نے اپنے آپ کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دیے کرخود کوسیاسی اور قوم کو معاشی طور پر دیوالیہ ضرور کر دیا ہے،اس کے باوجود بضد ہیں کہ اقتدار چھوڑیں گے

نہ ہی عوام کی عدالت میں جائیں گے۔یہ بات احساس ذمہ داری کی ہے کہ بدلتے حالات کا ادارک کرتے ہوئے ریاست کو اولیت دی جائے ،لیکن اگر ہم قومی سطح پر دیکھیں تو کسی کو بھی ریاست کا احساس ہی نہیں ہے ،تحریک انصاف جلد از جلد انتخابات کے انعقاد کا متواتر مطالبہ کر رہی ہے، جب کہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی کوشش ہے کہ کسی طرح انتخابات کم ازکم ایک دو سال کے لیے ملتوی کر دیے جائیں،سیاسی قیادت اپنے حصول مفاد میں سب جائز و ناجائز حربے آزمارہے ہیں ،جبکہ عام آدمی کو اس سے غرض نہیں ہے

کہ انتخابات دیر سویر سے ہوتے ہیں یا ملتوی کردیئے جاتے ہیں ،عوام کا خیال تو صرف یہ ہے کہ مہنگائی کم کی جائے ور امن و امان قائم کیا جائیے ، مگر حکمران قیادت کی بظاہران دونوں چیزوں کے بارے میں کوئی فکر ہی نہیںہے، حکمرانوں کاصرف یہ یک نکاتی ایجنڈا ہے کہ ان کی حکمرانی کسی طرح برقرار رہے، عوام جائے بھاڑ میں،اگر یہی سوچ برقرار رہی تو پھر معاشرے میں کسی کا احترام رہے گا نہ ہی کوئی اقتدار بچ پائے گا، ملک انارکی اور سول وار کی طرف ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔
اس وقت ملک سیاسی و معاشی طور پر دگرگوں صورتحال سے دوچار دکھائی دیے رہاہے، ملک دشمن طاقتیں اور عناصر ایک بار پھر امن و امان کی صورتحال خراب کر رہے ہیں،ایک طرف دہشت گردی کے ذریعے خطۂ امن تباہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب ملک میں سیاسی انتشار پھلا کر معاشی عدم استحکام سے دوچارا کیا جارہا ہے ، اس قومی سلامتی اورمعاشی تباہی کے خدشات کے پیش نظرعوام سیاسی قیادت سے یہی توقع رکھتے ہیں

کہ وہ اپنے تمام اختلافات پس پشت ڈال کر سر جوڑ کے بیٹھیں گے،ماضی میں ہونے والی غلطیوں،کوتاہیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اپنی غلطیوں کو بڑے دِل سے قبول کریں گے اور ایک ایسا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کریںگے کہ جس پر چل کر پاکستان کو ایک محفوظ و خوشحال ملک بنایا جا سکے،کیو نکہ پاکستان مضبوط ہے تو ہم سب مضبوط ہیں،

ہماری سیاست بھی مضبوط ہے،یہ دھرتی ہے تو اقتدار ہے، شہرتیں اور کامیابیاں ہیں، اگر ریاست نہیں تو سیاست رہے گی نہ ہی سیاسی مخالفت باقی بچے گی ،ریاست کے بغیر سیاست کے ساتھ سیاسی قیادت کاکچھ بھی باقی نہیںر ہے گا ۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مخالفین کی خواہش تو یہی رہی ہے کہ ہماری قومی قیادت اپنے فروعی مسائل میں اُلجھی رہے اور ارضِ پاک مسائل کی دلدل میں دھنستی چلی جائے ،تاہم پاکستان کے مسائل زدہ عوام اپنے رہنماؤں سے یہی اُمید لگائے رہتے ہیں

کہ وہ انتقامی سیاست کر نے اور جیل بھرو تحریک چلانے کے بجائے مل بیٹھ کرمستقبل کا کوئی واضح روڈ میپ قوم کے سامنے لائیں گے اور ملک مخالفین کی ساری چالیں ناکام بناتے ہوئے انہیں بتائیں گے کہ یہ ملک لاوارث نہیں ہے،اس ملک کے بھی والی وارث موجود ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ بھی اب لبریز ہو تا جارہاہے ،اگر ملک کے اندرونی و بیرونی مخالفین اب خود سے باز آ جائیںتو بہتر ہوگا ،ورنہ اس بار ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ اگر کوئی بھولنا چاہے بھی تو کبھی بھول نہیں پائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں